
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوںکی مخصوص نشستیں دینے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان سیٹوں کو جیتنے والی بقیہ جماعتوں میں تقسیم کرنے کا فیصلہ سنا دیا۔ یوں ن لیگ کی اکثریت سے بنائی گئی حکومت کو دوتہائی اکثریت دینے کا فارمولا تیار کر لیا گیا۔
اس وقت پی ڈی ایم اتحاد کو تقریباً 207 اراکین کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت کیلئے 224 ایم این ایز کی حمایت درکار ہے۔ پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل ) کی ان 30 مخصوص نشستوں کوحکومتی اتحاد کو ملنے سے دوتہائی اکثریت کا ہندسہ عبور ہو جائے گا۔ یاد رہے کہ آئین میں ترمیم کیلئے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے جو کہ موجودہ حکومت کے پاس نہ تھی جبکہ اب اسکے انتظام کا فیصلہ کر لیا گیا۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی (سنی اتحاد کونسل ) کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ 1۔4 کی تناسب سے دیاگیا جس میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے ممبر الیکشن کمیشن بابر حسن بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا۔
مزید پڑھیں:ن لیگ نے شکست تسلیم کر لی
فیصلے میں لکھا گیا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کیلئے کوئی درخواست جمع نہ کرائی جو کہ قانون کے تحت بہت ضروری ہے، اسلیئے مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتی ۔ فیصلے میں تفصیلاً لکھا گیا کہ ان نشستوں کو خالی نہیں چھوڑا جا سکتا ، یوں انتخابات کے بغیر ن لیگ کو دو تہائی اکثریت ملنے کے امکانات روشن ہو گئے۔
تحریک انصاف کے بیرسٹر سینیٹر علی ظفر نے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے تمام ممبران کے استعفیٰ کا مطالبہ کرتے ہیں جسکے لیئے قرارداد تیار کی جا چکی ہے جو جلد سینیٹ میں پیش کی جائے گی۔
علی ظفر کا مزید کہنا تھا کہ ہم سپریم کورٹ میں فیصلے کے خلاف درخواست دائر کریں گے۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سینیٹ اور صدارتی انتخابات کو ملتوی کیا جائے کیونکہ مخصوص نشستوں کے بغیر ایسا کوئی قانون موجود نہیں جس کے تحت یہ الیکشن ہوں۔
One Comment