
سہیل وڑائچ پاکستانی صحافت کا بڑا نام ہونے کے ساتھ ساتھ طاقتور حلقوں کے بھی بہت قریبی تصور کئے جاتے ہیں۔ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ملنے والی خبروں کو الفاظ میں اس طرح پروتے ہیں کہ جس کیلئے بات ہو وہ بھی سمجھ جاتا ہے اور پیغام بھیجنے والے کا پیغام بھی من و عن پہنچ جاتا ہے۔
تاہم گزشتہ دو تین دنوں سے سوشل میڈیا پر سہیل وڑائچ کا ایک کالم گردش کر رہا ہے جو کہ 7 فروری 2024 کو لکھا گیا تھا یعنی کے الیکشن سے صرف ایک روز قبل ۔ اس کالم کو سہیل وڑائچ صاحب نے عنوان دیا ، بنگلہ دیش ماڈل آرہا ہے۔
کالم کی چند ابتدائی لائنیں یہ ہیں: معلوم نہیں حتمی طور پر کیا ہوگا مگر فی الحال یہ طے ہوا ہے کہ انتخابات کے بعد پاکستان میں بنگلہ دیش کی طرح مستحکم سیاسی حکومت قائم کی جائے گی اور اسے مقتدرہ کی مکمل مدد و حمایت سے دس سال تک چلایا جائے گا۔
مزید پڑھیں:شہباز حکومت اور حسینہ حکومت میں قدر مشترک کیا ہے
مقصد یہ ہے کہ جس طرح بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد نے اداروں کی مدد سے اپنے ملک کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے اسکی پیروی کی جائے تاکہ پاکستان بھی معاشی اور سیاسی طور پر اپنے قدموں پر کھڑاہو سکے۔
اب جبکہ بنگلہ دیش میں سہیل صاحب کا پسندیدہ ماڈل ناکام ہو گیا ہے اور سامنے آرہا ہے کہ کس طرح میڈیا کنٹرول کر کے حسینہ واجد دنیا کو سب اچھا ہے کی رپورٹ دے رہیں تھیں اور دوسری جانب ملک کے اندرونی حالات یہ تھے کہ انہیں ملک سے نہ صرف بھاگنا پڑا بلکہ انہیں آخری تقریر بھی نہیں کرنے دی گئی۔
اس سے سوال اٹھ رہا ہے کہ خدانخواستہ جو بنگلہ دیش ماڈل دیکھنے کی پیشن گوئی سہیل وڑائچ کر رہے تھے اگر وہ سچ ثابت ہو گئی تو ملک کا کیا ہوگا؟ شہباز حکومت کہاں پناہ لینے کو بھاگے گی؟
سہیل صاحب کی پیشن گوئیوں پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت بسرا کا کہنا ہے کہ ذرائع کے مطابق مسلسل غلط مشورے، تجزیے اور پیشنگوئیاںکرنے پر اسٹیبلشمنٹ اور نواز شریف نے سہیل وڑائچ کو اپنے مشاورتی دائرے سے بے دخل کردیا ہے۔