
سینئر صحافی عمران ریاض کی جبری گمشدگی کے بعد واپسی کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے۔ آج سے ایک سال قبل جب عمران ریاض خان طویل گمشدگی کے بعد واپس آئے تو وہ جسمانی طور پر بہت نحیف ہو چکے تھے۔
عمران ریاض بولنے کی حس بھی تقریباً کھو چکے تھے اور وہ لڑ کھڑا کو بولتے تھے۔ ان کا کیس ایک لمبے عرصے تک چلتا رہا جس کی نمائندگی ان کے وکیل اور دوست میاں علی اشفاق لڑتے رہے۔
اپنی گمشدگی سے واپسی کا ایک سال مکمل ہونے پر عمران ریاض خان نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے ایک پوسٹ میں لکھا کہ ٹھیک ایک سال پہلے رات کے اس پہر مجھے 142 دن کی بدترین جبری قید کے بعد رہائی ملی تھی۔ میں ٹوٹا پھوٹا تھکا ہوا چکنا چور ڈھیروں خدشات لیے اپنے گھر جا رہا تھا۔
عمران لکھتے ہیںکہ میرے جسم پر اب کوئی نشان باقی نہیں مگر روح کے زخم ہیں کہ بھرتے ہی نہیں بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ اور بھی گہرے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ میں نے پہلے جیسا بننے کی بہت کوشش کی مگر میں پہلے کی طرح بھول جانا اب نہیں جانتا۔ میں نے ان 142 دنوں میں دہائیوں کا سفر طے کیا ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ واپس آیا تو لگا کہ شائد ظلم بند ہو جائے گا مجھے دوبارہ گھر سے اٹھایا گیا واپسی کے بعد چار گرفتاریاں ہوئیں۔ حج کا وعدہ کرکے عدالتی احکامات کے باوجود مجھے احرام میں گرفتار کیا گیا۔ کئی ماہ ہو گئے میں اب بھی اپنے بچوں اور ماں باپ سے دور ہوں۔ ایک بار پھر مقدمات کا سلسلہ شروع ہے۔ مگر اس ساری آزمائش میں میرا ایک بات پر ایمان بڑا پختہ ہوا ہے کہ میرا اللہ رب العزت ہی سب سے بڑا اور طاقتور ہے۔ باقی سب غلط فہمی ہے۔
عمران ریاض کے ٹویٹ پر جواب دیتے ہوئے شاعر احمد فرہاد جو کہ خود جبری گمشدگی برداشت کر چکے ہیں نہ جواباً لکھا کہ یہ اللہ کاکرم ہے۔ مجھے تو جب بھی اپنی تکلیفیں یاد اتی ہیں تو شکر ادا کرتا ہوں کہ نظریے نے قربانی لی۔آپ کا امتحان جتنا سخت تھا اجر بھی اتنا ذیادہ ہو گ۔پاکستان فیصلہ کن مرحلے پر ہے۔شکست انکا مقدر ہے۔