کراچی میں آپ جب تک گھر نہیں آ جاتے سڑکوں پر دندناتی موت کسی بھی وقت آپکو دبوچ سکتی ہے۔ آپ کسی اور کو ماری گئی گولی کی زد میں آکر ٹارگٹ کلنگ کا شکار بن سکتے ہیں یا ڈکیتی میں مزاحمت پر آپ لقمہ اجل بن سکتے ہیں۔
اگر ان تمام معاملات سے بچ کر آپ اپنے گھر کو آ گئے ہیں تو پھر بھی آپ کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہے کیونکہ نہیں معلوم اگلے ہی لمحے آپ کسی کھلے مین ہول میں گر کر جان کی بازی نہ ہار جائیں۔
کراچی میں گٹر کی ڈھکن نہ ہونے سے سالانہ درجنوں افراد جان کی بازی ہار جاتے جس میں بڑی تعداد بچوں کی ہوتی۔ ایک رپورٹ کے مطابق رواں سال کے پہلے 4 مہینوں میں 15 کے قریب افراد مین ہول کے ڈھکن نہ ہونے اور نالوں میں گرنے سے جان سے گئے۔
گذشتہ برس یہ تعداد 60 بتائی جاتی ہے جو کہ ایک بڑا نمبر ہے۔ لیکن کراچی کے مین ہول ہیں کہ پھر بھی نہیں ڈھکے جاتے۔ گزشتہ سال کا ایسا ہی ایک افسوس ناک واقعہ گلشن اقبال 13 ڈی میں پیش آیا جہاں دو بھائی کھیلنے کیلئے باہر گئے تو ان میں سے ایک مین ہول میں گر گیا۔
مزید پڑھیں:پاکستانی ایئر لائنز یورپ کیوں نہیں جا سکتیں؟
بچے کی عمر صرف چھ برس تھی۔ گھر میں والدہ تک خبر پہنچی تو وہ دوڑی آئیں۔ ریسکیو حکام کو بلایا گیا پر آنے میں بہت دیر ہو چکی تھی۔ سڑک کھو دی گئی لیکن معلوم نہ پڑا کہ بچے کی لاش گئی تو کہاں گئی۔
6 سالہ بچے کے اس حادثے کو ایک سال گزر چکا ہے والدین آج بھی کسی معجزے کے انتظار میں ہیں لیکن انہیں یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے کہ ان کی اتنی بڑی قربانی کے باوجود بھی آج تک مین ہول ویسے ہی کھلے ہیں اور کسی اور سانحے کی تلاش میں ہیں۔
سندھ حکومت کی بات کر لی جائے تو نہ آج تک ڈھکن چوری کرنے والے پکڑے گئے اور نہ ہی حکومت کو توفیق ہوئی کے دوبارہ ڈھکن کا انتظام کیا جائے۔ کیا چند سو روپے کے ڈھکن ہمارے بچوں کی جان سے قیمتی ہیں؟