
پاکستان میں ان دنوں گھر بیٹھے پیسہ کمانے کا خمار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ کوئی بھی محنت کر کے کمانے کو ترجیح دینے کو تیار نہیں ۔ سب ایسے شارٹ کٹ ڈھونڈنے میں مصروف ہیں جو انہیں جلد لاکھوں روپےکا مالک بنا دے۔ اسی لالچ کو کیش کر کے کراچی کے نوجوان فراڈ کی نظر ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ قرض کی دلدل میں پھنس رہے ہیں۔
وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے مطابق انہیں حالیہ دنوں میں کراچی سے ایسے کئی کیسز رپورٹ ہوئے ہیں جن میں والدین کی جانب سے شکایت کی جارہی ہیں کہ ان کے بچوں کو آن لائن ارننگ کے نام پر کمپنیوں نے اپنے پاس کام پر رکھا تاہم اب وہ انہیں نقصان ہونے پر بلیک میل کر رہی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق کراچی میں ٹریڈنگ کے نام پر کئی شاہانہ آفس کھل گئے ہیں جو نوجوانوں کو فاریکس ٹریڈنگ کے نام پر اپنی جانب متوجہ کراتے ، پھر انہیں ٹریننگ دے کر ڈمی اکاؤنٹ بنواتے۔ سیکھ جانے کے بعد نوجوانوں کے بینک اکاؤنٹس کھلوا کر ان میں بھاری رقم رکھوا کر ٹریڈنگ شروع کرا دی جاتی۔
تاہم اس دوران نوجوانوں سے کچھ چیک سائن کرا لیئے جاتے ہیں۔ یوں جب کمپنی کو نقصان ہونے لگتا ہے تو وہ ان نوجوانوں سے اس کا ازالہ کرنے کی مانگ کرتے ہیں جسے پورا نہ کرنے پر وہ چیک جمع کرانے کی دھمکی دی جاتی جو باؤنس ہو جاتے ہیں اور نوجوان مقدمے کی نظر ہو جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بجلی کی اوور بلنگ : صارفین کو پیسے واپس ملیں گے
اس واردات پر چلتے ہوئے کراچی کے نوجوان اب قرضے کی دلدل میں پھنس رہے ہیں اور ان کی پاس بلیک میل ہونے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں ہے کیونکہ ان کے سائن شدہ چیک کسی بھی وقت بینک میں جمع کرا کر باؤنس ہونے پر مقدمہ درج کرایا جاسکتا ہے۔
جلد از جلد امیر بننے کے اس خواب میں نہ صرف نوجوان قرض کی دلدل میں پھنس رہے ہیں بلکہ کئی مواقعوں پر خود کشی جیسے بڑے عمل کرنے پر بھی مجبور ہورہے ہیں۔
پاکستان میں ٹریڈنگ کے حوالے سے کسی بھی طرح کی قانون سازی نہ ہونے اور حکومت کی جانب سے اس پر کئی ایکشن نہ لینے کی وجہ سے آئے روز لوگ ان فراڈ کا شکار ہو رہے ہیں۔