کامیاب ہڑتال کا کریڈٹ؛ تاجربرادی کو یا جماعت اسلامی

28 اگست کو ملک بھر میں تاجروں کی جانب سے ظالمانہ ٹیکسز اور بجلی کی قیمتوں کے خلاف احتجاج کیا گیا۔ یہ ملک گیر احتجاج ایسا تھاجس کی نظیر نہیں ملتی۔ بازار اور بڑی مارکیٹیں کیا، گلی محلے کی دکانوں پر بھی ہو کا عالم تھا۔ یہ ہڑتال یوں تو کامیاب رہی لیکن اس کے ساتھ ایک بحث جڑی رہے کہ کیا اس کر کریڈٹ جماعت اسلامی کو جاتا ہے یا تاجربرادری کو۔
جماعت اسلامی اور چند صحافیوں کی جانب سے اسے جماعت اسلامی کے کریڈٹ میں دیا گیا۔ صحافی بشیر چوہدری نے اس حوالے سے لکھا کہ میں صبح سے مصروف تھا ابھی گھر آ رہا تھا تو سوچا دکان سے بچوں کے لیے کچھ چیزیں لے لوں۔ سوچا بنی گالا بازار تو بند ہوگا تو چھوٹی مارکیٹ یا محلے کی دکان سے لیتا ہوں اور حیرانگی کی انتہا اس وقت ہوئی جب گلی محلے کی دکانیں بھی بند ملیں اور خالی ہاتھ گھر لوٹنا پڑا۔
شٹر ڈاؤن کی ایسی مثال ماضی قریب میں تو نہیں ملتی۔ اس کا کریڈٹ بلاشبہ جماعت اسلامی اور حافظ نعیم کو جاتا ہے جنھوں نے پورا مہینہ ملک بھر کے تاجروں کے ساتھ ایک ایک بازار میں جا کر بات چیت کی۔ بجلی کی قیمتوں اور ٹیکسوں کے حوالے سے اتنی بڑی آگاہی مہم شاید ہی کوئی اور چلا سکے۔
مزید پڑھیں: کوئٹہ ہوٹل کے بائیکاٹ کی مہم کیا ہے
صحافی صدیق جان نے لکھا کہ آج کی ہڑتال تاجروں کی کال پر ہے،سیاسی جماعتوں نے صرف سپورٹ کا اعلان کیا ہے جس جماعت کو کریڈٹ دینے کی کوشش کی جارہی ہے،اس کے نام سے تو ویسے ہی خوف آتا ہے کیونکہ وہ بجلی سستی کرانے کے نام پر بجلی مہنگی کروا کر چلے جاتے ہیں کیونکہ ان کے پنجاب کے لیڈرز اس لیے ن لیگ سے سودے بازی کر لیتے ہیں کہ ہمارے سندھ سے نومنتخب لیڈر کو کامیابی کا کریڈٹ نہ مل جائے۔
اس حوالے سے کئی تاجر رہنماؤں کی پریس کانفرنس بھی دیکھنے کو ملی جن میں ن لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر کی ویڈیو بھی جاری ہوئی، جن کا کہنا تھا کہ وہ ن لیگ کے ووٹر ہیں لیکن اب حالات بہت مشکل کر دیئے گئے ہیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے بھی اس ہڑتال ک سپورٹ کی گئی تھی جو کہ یقیناً ایک بڑی تاجر برادری کی حمایت رکھتی ہے۔ اس لئے اس کامیاب ہڑتال کا کریڈٹ کسی سیاسی جماعت کو دینے کی بجائے تاجروں کو جاتا ہے کیونکہ ان کے تعاون کے بغیر یہ ممکن نہ تھا۔