الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سامنے دو فیصلے آئے، ایک فیصلہ 12 جولائی کو مخصوص نشستوں کے کیس کا جس میں جسٹس منصور علی شاہ سمیت آٹھ ججز نے اکثریتی فیصلہ دیا۔ دوسرا فیصلہ تین نشستوں کے کیس کے متعلق 12 اگست کو آیا جس میں اکثریتی فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دیا۔
الیکشن کمیشن نے ان دو فیصلوں کو مختلف طریقے سے ڈیل کیا۔ 12 جولائی کو مخصوص نشستوں کے کیس میں جسٹس منصور کے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو جو احکامات دیئے گئے تھے، الیکشن کمیشن نے ان پر عملدرآمد نہیں کیا۔الیکشن کمیشن نے اس فیصلے پر نظرثانی درخواست دائر کر دی ہے ، حالانکہ ابھی تفصیلی فیصلہ آنا بھی باقی ہے۔
دوسری جانب 12 اگست کے قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کو الیکشن کمیشن نے فوراً قبول کرتے ہوئے اگلا ایکشن بھی کردیا ہے۔
یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے جانب سے تین حلقوں میں ری کاؤنٹنگ سے متعلق تھا، جہاں سپریم کورٹ نے تین نشستیں ن لیگی رہنماؤں کو لوٹا دی ہیں۔
اس فیصلے پر عملدرآمد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے جیتنے والے تینوں ن لیگی رہنماؤں کی جیت کا نوٹیفکیشن کر دیا ہے ۔ جبکہ دوسری جانب پی ٹی آئی کو مخصوص نشستیں دینے کے فیصلے پر ابھی تک عمل نہیں ہوا ہے۔
مزید پڑھیں: قاضی فائز عیسیٰ کی ایکسٹنشن پر عمران خان نے اپنا پلان بتا دیا
الیکشن کمیشن نے 12 جولائی کے فیصلے پر نہ قانونی ٹیم سے بریفنگ لی، نہ ہی کوئی میٹنگ کی اور نہ ہی کوئی ابہام پایا گیا۔ جبکہ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے تفصیلی فیصلہ نہ آنے کے باوجود بھی قانونی ٹیم سے بریفنگ بھی لی، میٹنگز بھی بلائیں، فیصلے پر ابہام کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع بھی کیا اور فیصلے کے خلاف نظرثانی بھی دائر کردی۔
یوں الیکشن کمیشن پر ایک بار پھر جانبداری کا سوال اٹھایاجارہا ہے اور سپریم کورٹ کے من پسند فیصلے قبول کرنا اور دوسرے فیصلوں کو نظرانداز کرنے کی پالیسی پر ادارے کی ساکھ پر مزید سوالیہ نشان اٹھ رہے ہیں۔
سیالکوٹ سے پی ٹی آئی رہنما سعید احمد بھالی نے ایکس پر الیکشن کمیشن کے آج کی نوٹیفکیشن پر لکھا کہ: فِکس میچ ، تیز تر انصاف ، 12 اگست کو سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا 13th کو الیکشن کمیشن نے عملدرآمد کرتے ہوئے سیٹییں ن لیگ کو دے دیں نہ کوئی میٹنگ ہوئی نہ قانونی ٹیم کی کوئی معاونت لی گئی ۔