جسٹس بابرستار، طارق محمود جہانگیری اور محسن اختر کیانی کے استعفیٰ تیار

شہر اقتدار میں اس وقت آئینی ترمیمی کی گونج ہے جس کے ذریعے عدلیہ کے حوالے سے خصوصی قانون سازی کی بازگشت ہے۔ اسی حوالے سے وکیل خالد حسین تاج نے ججز کی روٹیشن پالیسی سے متعلق قانون آنے کی پیشن گوئی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب روٹیشن کے حوالے سے ترمیم ہو گئی تو کچھ اچھے ججز مستعفی بھی ہو سکتے ہیں۔
خالد حسین تاج نے لکھا کہ فرض کریں جسٹس بابر ستار یا محسن اختر کیانی صاحب کو روٹیشن کے تحت ڈیرہ اسماعیل خان بینج یا بہاولپور بینج ٹرانسفر کیا گیا تو یہ اگلے دن ہی مستعفی ہونگے اسی طرح طارق جہانگیری سردار اسحاق کو مینگورہ بینچ یا لاڑکانہ بینچ ٹرانسفر کیا گیا تو یہ دونوں بھی استعفیٰ دے سکتے ہیں اسی طرح جسٹس ثمن رفعت اور ارباب طاہر کو ملتان یا ڈیرہ اسماعیل خان بینچ بھیج دیا گیا تو یہ دونوں بھی مستعفی ہو سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید لکھا کہ اگر روٹیشن پالیسی کے تحت جسٹس گل حسن اورنگزیب کو ایبٹ آباد یا سکھر بینچ دیا گیا تو یہ بھی مستعفی ہو سکتا ہے تو روٹیشن پالیسی کی وہجہ سے کچھ اچھے ججز مستعفی ہو سکتے ہیں۔ جو ڈیشل پیکیج میں ایک ایک چیز کو مد نظر رکھنا ہوگا میرا کام صرف بتانا تھا میں نے بتا دیا کیونکہ عدالتی اور آئینی امور پر تجزیہ دیتے ہوئے مجھے بہت مزہ آتا ہے اب گیند پارلیمنٹ کے کورٹ میں۔
خالد حیسن تاج یقیناً ججز کے خلاف طنزیہ گفتگوکر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ ججز کی روٹیشن پالیسی یہ ہے کہ اسلام آباد ، لاہور، کراچی بلوچستان وغیرہ کی چھوٹی عدالتیں اور ہائیکورٹس کے ججز کو ایک سے دوسری جگہ بھیجا جا سکے گا۔
مزید پڑھیں: خط لکھنے والے 6 ججز کو کس نے لگایا، راز کھل گیا
اس حوالے سے خالد حسین تاج نے لکھا کہ جوڈیشل پیکج تیار ہو گیا جو 30 ستمبر سے پہلے کسی بھی وقت قومی اسمبلی میں پیش کیا جائیگا اس جوڈیشل پیکج کے زریعے اسلام آباد بار ایسو سی ایشن کے 7000 وکلا کا دیرینہ مطالبہ ججز روٹیشن کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اب لاہور کراچی بلوچستان، پشاور کی طرح اسلام آباد کے لور جوڈیشری اور ہائی کورٹ کے ججز کو بھی روٹیشن پالیسی کے تحت ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیج دیا جائیگا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کو خاص طور پر جسٹس بابر ستار، محسن اختر کیانی وغیرہ کو نشانہ بناتے ہوئے وکیل رہنما کا کہنا تھا کہ جوڈیشل پیکج کے زریعے اسلام آباد کے ججز کی روٹیشن اسلیے بھی ضروری ہے اسلام آباد کے جوڈیشری عوام کو انصاف پہنچانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے اس کی خاص وجہ ججز کی روٹیشن نا ہونا ایک جج 10 سال ایک ہی سٹیشن میں رہے تو پھر اس علاقے میں اس کے بہت سے لنک بنتے ہیں جو ان کے فیصلوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔