جو کچھ نہیں کر سکتا وہ ٹیچر بن جاتا ہے۔ یہ جملہ آپ نے اپنی زندگی میں کئی بار سنا ہوگا۔ کئی لوگ اس جملے کے ساتھ اضافی مثال کے طور پر چند لوگوں کے نام بھی اٹھا لیتے ہیں کہ فلاں کو دیکھو وہ کچھ نہیں کر سکتا تھا تو اب ٹیچر بن گیا ہے۔
اس حوالے سے ہزاروں ٹیچرز کی ٹریننگ کروانے والے عباس حسین کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ جملہ سن رکھا ہے اور یہ کافی تکلیف دہ بھی ہے۔ تاہم یہ جملہ درست نہیں ہے۔
ہزاروں ٹیچرز کی ٹریننگ کرنے والے عباس حسین کا خیال ہے کہ جو کچھ نہیں کرسکتا وہ ٹیچنگ کر لیتا ہے یہ بات دراصل دوسرے پیشوں سے وابستہ افراد کی ایجاد ہے۔
عباس حسین کا کہنا ہے کہ یہ بات درست ہے کہ کچھ لوگ ٹیچنگ کے شعبہ میں حادثاتی طور پرآئے۔ لیکن کیا جو پولیس میں ہیں وہ یہ سوچ کر پیدا ہوئے تھے کہ وہ پولیس میں جائیں گے؟ یا دوسرے کسی بھی شعبے سے وابستہ افراد کیا اپنی پیدائشی بلاوے کا جواب دے رہے ہیں؟
مزید پڑھیں:بی ایم ڈبلیو میں بڑا فالٹ،خریدنے والے ہو جائیں ہوشیار
عباس حسین کے مطابق سکالرز نے ایک فریم ورک ترتیب دیا ہے جو ٹیچنگ میں چلتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ جو تین سال ٹیچنگ میں لگا لیتے ہیں ، ان کی ترجیحات میں تبدیلی ہو جاتی ہے۔
اسی طرح جو پانچ سال ٹیچنگ میں لگا لیتے ہیں ان کیلئے بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ ٹیچنگ کو چھوڑ دیں۔
عباس حسین کے مطابق بہت سے لوگ اپنی چوائس سے ٹیچنگ کے شعبے میں آتے ہیں اور جوحادثاتی طور پر بھی اس فیلڈ میں آکر کچھ وقت گزار لیتے ہیں وہ پھر اس پروفیشن کی باریکیوں سے جڑ جاتے ہیں۔
ان کے مطابق جو کچھ نہیں کرسکتا وہ ٹیچنگ کر لیتا ہے ایک غلط کانسیپٹ ہے کیونکہ کوئی بھی اور شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے پروفیشنلز پہلے سے ہی سب سوچ کر اس دنیا میں آئے ہوں۔