جنگ بندی کے بعد غزہ کے حالات کیسے ہیں؟ آگے کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
ابتدائی مرحلے کے تحت تقریباً 48 اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے 2,000 کے قریب فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ جاری ہے۔

دو سالہ تباہ کن جنگ کے بعد غزہ نے ایک محتاط نئے باب کا آغاز کیا ہے، کیونکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ نافذالعمل ہو چکا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترکی، قطر اور مصر کی ثالثی میں طے پانے والا یہ معاہدہ 8 اکتوبر کو اعلان کیا گیا اور 10 اکتوبر کو نافذ ہوا۔
یہ جنگ بندی اس جنگ کو ختم کرنے کی تازہ ترین کوشش ہے جس میں اب تک 67 ہزار سے زائد فلسطینی جان سے گئے اور غزہ کی تقریباً 90 فیصد آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔
جنگ بندی کا معاہدہ: کلیدی نکات اور نفاذ
یہ امن فریم ورک ایک مرحلہ وار منصوبہ ہے جس کا مقصد 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے شروع ہونے والی دشمنی کا خاتمہ ہے۔ اس حملے میں تقریباً 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 اسرائیلی یرغمال بنائے گئے تھے۔
پہلا مرحلہ: قیدیوں اور یرغمالیوں کا تبادلہ
ابتدائی مرحلے کے تحت تقریباً 48 اسرائیلی یرغمالیوں کے بدلے 2,000 کے قریب فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ جاری ہے۔ ان میں 20 زندہ یرغمالی اور 28 کی لاشیں شامل ہیں، جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ دو مزید یرغمالی اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہ تبادلہ سخت شرائط کے تحت ہو رہا ہے، اور فلسطینی قیدیوں کی رہائی پیر کی سہ پہر 72 گھنٹے مکمل ہونے کے بعد عمل میں آئے گی تاکہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں — زندہ یا جاں بحق — کی محفوظ واپسی کو یقینی بنایا جا سکے۔
فوجی نقل و حرکت میں تبدیلی
اسرائیلی فوج نے غزہ کے گنجان آباد علاقوں اور شہروں سے انخلا شروع کر دیا ہے جس سے غزہ کے حالات معمول پر آنے کی توقع ہے۔ تاہم وہ اب بھی کچھ مقامات پر فوجی موجودگی برقرار رکھے ہوئے ہے۔ معاہدے کے مطابق اسرائیلی فوجیوں کو غزہ کی سرحدی حفاظتی پٹیوں تک محدود ہونا ہے۔
امریکی فوجی عملہ بھی معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کے لیے اسرائیل پہنچ چکا ہے۔
واپسی کا سفر: فلسطینی واپس لوٹنے پر غزہ کے حالات میں کیا دیکھ رہے ہیں؟
ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ سے زیادہ فلسطینی غزہ واپس پہنچ چکے ہیںَ جنگ بندی کے پہلے ہی دن ہزاروں افراد جنوبی غزہ سے شمال کی طرف پیدل روانہ ہوئے، اپنے بچ جانے والے تھوڑے سے سامان کے ساتھ۔
تباہی کی وسعت
غزہ میں انسانی اور مالی نقصان ناقابلِ تصور حد تک پہنچ چکا ہے ۔ غزہ کے حالات انسانی المیے کو جنم دے چکے ہیں۔
جنگ نے گھروں، اسپتالوں، اسکولوں، پناہ گاہوں اور بنیادی سہولیات کا صفایا کر دیا ہے۔ مقامی حکام کے مطابق جیسے جیسے لوگ واپس لوٹ رہے ہیں، ملبے تلے سے لاشیں برآمد ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق، جنگ کے دوران 19 لاکھ افراد — یعنی غزہ کی تقریباً 90 فیصد آبادی — بے گھر ہو چکے ہیں۔
کئی خاندانوں کو 10 مرتبہ تک نقل مکانی کرنی پڑی۔ صرف مارچ سے جون 2025 کے درمیان 6.4 لاکھ نئے افراد بے گھر ہوئے۔
انسانی امداد میں اضافہ
جنگ بندی کی شرائط کے مطابق غزہ میں انسانی امداد کی ترسیل میں نمایاں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ امدادی تنظیمیں غذائی قلت اور طبی سہولیات کی کمی جیسے سنگین بحرانوں سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
تاہم 2025 کے دوران امداد کی تقسیم انتہائی خطرناک عمل ثابت ہوا، اور ہزاروں فلسطینی خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں جان سے گئے۔
سابقہ جنگ بندی کی کوششیں اور ان سے حاصل سبق
موجودہ اکتوبر 2025 کا معاہدہ جنوری 2025 کی ناکام جنگ بندی کے بعد سامنے آیا ہے۔ اس پچھلی جنگ بندی میں 38 اسرائیلی یرغمالیوں، 5 تھائی باشندوں اور 8 لاشوں کے بدلے 1,755 فلسطینی قیدی رہا کیے گئے تھے، اور عارضی طور پر امداد میں اضافہ ہوا تھا۔
تاہم 18 مارچ 2025 کو اسرائیل نے غزہ پر فضائی حملے دوبارہ شروع کر دیے، جس سے معاہدہ ٹوٹ گیا۔ یہ واقعہ موجودہ امن عمل کی نازکی اور پائیدار امن کے چیلنجز کو نمایاں کرتا ہے۔
آگے کا راستہ: غیر یقینی مگر اُمید افزا مستقبل
دوسرا مرحلہ: آئندہ مذاکرات
یہ معاہدہ ایک کثیر مراحل پر مشتمل امن منصوبے کا پہلا قدم ہے۔ دوسرا مرحلہ اب بھی زیرِ بحث ہے، جس میں حماس کی ممکنہ مکمل ہتھیار ڈالنے اور غزہ میں مستقل سکیورٹی نظام کے حوالے سے مذاکرات جاری ہیں۔
بین الاقوامی نگرانی
امریکی افواج کی شمولیت اس بات کی غیر معمولی علامت ہے کہ عالمی برادری اس جنگ بندی کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے سنجیدہ ہے۔
امریکہ، قطر اور مصر کی ثالثی نے دونوں فریقوں کو مذاکرات کی میز پر لانے میں اہم کردار ادا کیا۔
پائیدار امن کے رکاوٹیں
اس جنگ بندی کے استحکام کو کئی خطرات لاحق ہیں:
- اعتماد کا فقدان: جنوری 2025 کی ناکامی نے دونوں جانب سے عدم اعتماد پیدا کر دیا ہے۔
- تعمیرِ نو کی ضرورت: غزہ کی تباہی اتنی وسیع ہے کہ اربوں ڈالرز اور کئی سال درکار ہوں گے۔
- سیاسی غیر یقینی صورتحال: یہ سوال برقرار ہے کہ غزہ کا سیاسی کنٹرول کس کے ہاتھ میں ہوگا — حماس یا کوئی نیا انتظام۔
- سکیورٹی خدشات: اسرائیل کی حفاظتی پٹیوں اور فوجی موجودگی پر اصرار فلسطینی خودمختاری کے مطالبے سے متصادم ہے۔
- انسانی بحران: امداد میں اضافے کے باوجود خوراک، دوائیں، اور بنیادی سہولیات کی شدید قلت برقرار ہے۔
اگلا مرحلہ کیا ہوگا
پیر کو 72 گھنٹے مکمل ہونے کے بعد توجہ اس بات پر مرکوز ہوگی کہ آیا دونوں فریق دوسرے مرحلے کے مذاکرات کی طرف بڑھتے ہیں یا نہیں۔
اہم معاملات میں شامل ہیں:
- اسرائیلی و فلسطینیوں کے لیے طویل المدتی سکیورٹی انتظامات
- تعمیرِ نو کے فنڈز اور ان کی نگرانی
- غزہ کی حکمرانی کا ڈھانچہ
- شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت
- ناکہ بندی کا مستقل خاتمہ
- باقی قیدیوں اور یرغمالیوں کی حیثیت
نتیجہ: امن کی ایک نازک کھڑکی
فلسطینی اپنے ویران گھروں کے ملبے میں لوٹ رہے ہیں اور خاندان یرغمالیوں و قیدیوں کی واپسی کے منتظر ہیں، غزہ کے حالات بہتری کی طرف جارہے ہیں۔
یہ جنگ بندی تشدد سے وقتی نجات اور دائمی امن کی امید پیش کرتی ہے۔ مگر سابقہ معاہدوں کی ناکامی اور تعمیرِ نو کے بھاری چیلنجز اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ عالمی برادری مسلسل کردار ادا کرے۔
آنے والے چند ہفتے طے کریں گے کہ آیا یہ جنگ بندی پائیدار امن معاہدے میں بدلتی ہے یا غزہ ایک بار پھر تصادم کی لپیٹ میں آتا ہے۔دو سالہ تباہ کن جنگ سے متاثرہ لاکھوں فلسطینیوں کے لیے یہی امید باقی ہے کہ اس بار امن قائم رہے۔