بلاگپاکستان

جب نواز شریف شیر کا نشان تبدیل کرانے عدالت گئے

کیا آپ جانتے ہیں کہ شیر کا یہ نشان ن لیگ کو حادثاتی طور پر ملا۔ صرف حادثاتی طور پر انتخابی نشان ملنا ہی نہیں بلکہ اس کے بعد میاں محمد نواز شریف شیر کا نشان تبدیل کرانے عدالت بھی گئے۔

پاکستان مسلم لیگ ن اپنے انتخابی نشان شیر پر فخر کرتے ہوئے اپنے قائد میاں محمد نواز شریف کو اکثر شیر سے تشبیہ بھی دیتی رہتی ہے۔

اکثر انتخابات میں ن لیگ کا الیکشن کا نعرہ بھی یہی رہا ہے کہ ” شیر آرہا ہے”۔ لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ شیر کا یہ نشان ن لیگ کو حادثاتی طور پر ملا۔

صرف حادثاتی طور پر انتخابی نشان ملنا ہی نہیں بلکہ اس کے بعد میاں محمد نواز شریف شیر کا نشان تبدیل کرانے عدالت بھی گئے۔

تاہم عدالت سے ریلیف نہ ملنے کے بعد ن لیگ کو بالآخر بھاری دل سے شیر کا نشان تسلیم کرنا پڑا۔

 

جب ن لیگ کو انتخابی نشان شیر حادثاتی طور پر ملا:

اس سے قبل مسلم لیگ کا انتخابی نشان سائیکل ہوا کرتا تھا۔ 1990 کے الیکشن میں اسلامی جمہوری اتحاد نامی انتخابی الائنس کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ نے الیکشن لڑا، جس کے بعد نواز شریف وزیر اعظم بنے۔ اس اتحاد کا انتخابی نشان بھی سائیکل ہی تھا.

 


تاہم یہ اتحاد آہستہ آہستہ کر کے ایسا ٹوٹا کہ بالآخر مسلم لیگ بھی دو دھڑوں میں بٹ گئی۔ مسلم لیگ نواز گروپ اور مسلم لیگ چٹھہ گروپ۔ دونوں الیکشن میں الگ الگ اترنا چاہتے تھے اور دونوں سائیکل کے انتخابی نشان کے امیدوار تھے۔

مزید پڑھیں: جب نواز شریف نے نگران وزیر اعلیٰ‌ہوتے ہوئے الیکشن لڑا

جب الیکشن کمیشن میں دلائل کے باوجود کسی نتیجے پر نہ پہنچا جا سکا تو ٹاس کرایا گیا، جس میں سائیکل کا نشان چٹھہ گروپ کو مل گیا اور نواز گروپ کو شیر کا انتخابی نشان الاٹ کر دیا گیا۔

نواز شریف اس فیصلے کو تبدیل کرانے اور شیر کا نشان واپس لینے عدالت پہنچ گئے. تاہم وہاں بات نہ بنی اور بالآخر مسلم لیگ ن کو بھاری دل کے ساتھ یہ فیصلہ قبول کرنا پڑا۔

شیر کا نشان  ن لیگ کا امتحان کیوں تھا؟

بھاری دل اسلیئے کے یہ 1993 کا دور تھا جب نہ تو سوشل میڈیا تھا نہ ہی الیکٹرانک میڈیا۔ ریڈیواور اخبار کی رسائی بھی اس حد تک نہ تھی کہ اس کی بنیاد پر اتنی بڑی تبدیلی قلیل عرصے میں عوام تک پہنچائی جا سکے۔

یوں یہ بھی ایک تاریخی عجوبہ ہے کہ شیر کانشان جو آج ن لیگ کی پہچان ہے وہ حادثاتی طور پر ن لیگ کو دیا گیا۔
آج کل پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان بلا واپس لینے کی تیاری بھی مکمل ہے۔

تاہم آج کے دور میں نیا انتخابی نشان لوگوں تک پہنچانا نسبتا آسان ہے لیکن آج بھی محنت بہت کرنا ہوگی۔

 

اس کی مثال ہم نے 2024 کے الیکشن میں دیکھی جب پی ٹی آئی سے الیکشن سے چند روز قبل ہی انتخابی نشان بلا واپس لے لیا گیا۔

یہی نہیں پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد کر دیا گیا یعنی کہ اب ہر امیدوار کا اپنا انتخابی نشان تھا۔ کسی کو دروازے کا نشان ملا تو کسی کو بینگن کا۔

لیکن پی ٹی آئی  نے سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو اس حد تک قائل کر لیا تھا کہ لوگ بینگن، دروازہ، آلو سب نشان خود سے ڈھونڈ کر پی ٹی آئی امیدواروں کو ووٹ کر رہے تھے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button