
حجر اسود مسلمانوں کیلئے بہت مذہبی اہمیت رکھتا ہے اور مسلمان دوران طواف اس کا بوسہ لیتے ہیں۔ تاہم اسلامی تاریخ میں ایسا دردناک دور بھی گزرا ہے جب حجر اسود کو خانہ کعبہ سے زبردستی اتارا لیا گیا اور تقریباً 22 سال تک یہ حملہ آوروں کے قبضے میں رہا۔
حجر اسود کی چوری کا واقعہ:
سلطنت عثمانیہ کے تاریخ دان قطب الدین لکھتے ہیں کہ سن 930 کی بات ہے جب قرامطی فرقے سے تعلق رکھنے والا ایک جنگی سردار ابو طاہر الجنابی خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوا اور خون ریزی کرنے کے ساتھ ساتھ خانہ خدا سےحجر اسود چوری کر کے ساتھ لے گئے
قطب الدین لکھتے ہیں کہ قرامطی ایک فرقہ تھا جس کے عقائد اسلام سے متضاد تھے تاہم سردار ابو طاہر الجنابی نے بحرین کے شہر ہجر میں ایک عمارت تعمیر کرائی جس کانام اس نے دارالہجرہ رکھا۔ وہ چاہتا تھا کہ مسلمان مکہ مکرمہ کی بجائے یہاں آکر حج کریں اور اسی مقصد کے حصول کیلئے وہ خانہ کعبہ پر حملہ آور ہوا۔
سال 930 میں وہ ایام حج میں حملہ آور ہوا اور مسلح سپاہیوں اور گھوڑوں سمیت حرم میں داخل ہوتے ہی سپاہیوں کو طواف کرتے لوگوں کے سرقلم کرنے کا حکم دیا۔
مزید پڑھیں: جب پاک فوج نے خانہ کعبہ کو تباہی سے بچایا
تاریخ کی کتابوں میں لکھا گیا ہے کہ اس حملے میں کم از کم 30 ہزار حجاج کرام شہید ہوئے۔ قطب الدین لکھتے ہیں کہ طاہر الجنابی اس وقت حالت نشہ میں تھا اور اس نے اسی حالت میں خانہ کعبہ کا دروازہ بھی اکھاڑ ڈالااور ساتھ ہی کفریہ کلمات بھی ادا کرتا رہا۔ملعون ابو طاہر نے حاجیوں کا مال اسباب لوٹا اور عورتوں اور بچوں کو سپاہیوں میں تقسیم کر دیا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس کے بعد اس نے حجر اسود کو اکھاڑا اور اونٹ پر لدوا کر شہر کی جانب چل پڑا۔ وہ حجر اسود کو لے کر بحرین پہنچ گیا اور تقریباً 22 سال وہ دارالہجرہ میں مقید رہا۔تاہم اس کی یہ خواہش کے لوگ یہاں آکر حج کریں پورا نہ ہوا۔
حجر اسود کی دوبارہ واپسی:
یوں چند سال بعد وہ چیچک کے مرض میں مبتلا ہو کر مرگیا تو اس کے جانشین مئی 951 میں حجر اسود لے کر مکہ آگیا اور اس وقت مکہ کے حکمران جعفر محمد بن عبدالعزیز کے دور میں دوبارہ نصب کر دیا گیا۔
مؤرخین لکھتے ہیں کہ ان 22 سالوں کے دوران حج کو آتے قافلوں کو بھی قرامطی لوٹ لیا کرتے تھے یوں حج کے فریضے میں کافی حد تک رکاوٹیں ڈالی گئیں لیکن ابوطاہر اپنے مقصد میں ناکام رہا۔ حجر اسود چوری ہونے کے ان سالوں میں حجاج کرام حجر اسود کی خالی جگہ پربوسہ دیتے رہے۔