پاکستان میں ملٹری اور سول قیادت کے درمیان اختلافات کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آج تک کوئی بھی جمہوری حکومت کے وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کر پائے۔ جس وزیر اعظم کو اقتدار سے بے دخل کیا جاتا ہے وہ الزام ہمیشہ فوجی قیادت پر جاتا ہے۔
اگر ہم پی ٹی آئی کی گزشتہ حکومت کی بر طرفی دیکھیں تو اس پر بھی عمران خان اور انکی پارٹی کا یہی مؤقف رہا ہے کہ جنرل باجوہ نے پی ڈی ایم حکومت کے ساتھ مل کر ان کی حکومت گرائی۔پی ڈی ایم کے کئی رہنما کھلم کھلا اس بات سے اتفاق کرتے رہیں کے جنرل باجوہ نے انہیں تحریک عدم اعتماد میں مدد کی۔
تین بار وزیر اعظم رہنے کے بعد اب چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے امیدوار میاں محمد نواز شریف صاحب بھی دو بار اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات کے باعث اقتدار کھوبیٹے اور تیسری بار انہیں عدالت نے نااہل کیا۔ تاہم تیسری بار پر بھی ان کا کہنا ہے کہ ان کو ہٹانے میں جنرل فیض حمید اور جنرل باجوہ کا ہاتھ تھا۔
مختلف ملکی اور غیر ملکی معاملات پر پالیسیوں پر اکثر سول اور ملٹری حکومت کے درمیان تناؤ کی کیفیت بن جاتی ہے جس میں آرمی سربراہان منتخب حکومت کی بات ماننے سے انکار کر دیتے ہیں۔
تاہم کیا آپ جانتے ہیں کہ ایک آرمی سربراہ نے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی بات بھی ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ہوا کچھ یوں کی قیام پاکستان کے بعد کشمیر بھی ان ریاستوں کا حصہ تھی جنہوں نے پاکستان یا ہندوستان سے الحاق کرنا تھا۔
مزید پرھیں: نومبر 2007:جب عمران خان پہلی بار جیل گئے
کشمیر پاکستان کے بارڈر پر تھا اور یہاں مسلمان کی اکثریت بھی تھی۔ ایسے میں کشمیر کا پاکستان سے الحاق فطری بات تھی۔لیکن کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے بھارت سے ساز باز شروع کر کے کشمیر کا الحاق پاکستان کی بجائے ہندوستان سے کرنے کی پکی تیاری کر لی۔ صرف یہی نہیں انہوں کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام بھی شروع کر دیا۔
راجہ کی ارادے اور کاروائیوں سے تنگ آکر کشمیریوں نے بغاوت کا اعلان کر دیا۔ پاکستان سے بھی ہزاروں قبائلی اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کو جا پہنچے۔کشمیریوں اور قبائلیوں کا مشترکہ قافلہ جب سری نگر پہنچا تو راجہ دہلی فرار ہو گیا اور وہاں جا کر راجہ نے کشمیر کا بھارت سے الحاق کر دیا۔
بھارت نے ہیلی کاپٹرز کے ذریعے فوج کشمیر میں اتار دی۔ اس وقت گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح نے پاکستان کی وسائل سے محروم فوج کے برطانوی سربراہ جنرل ڈگلس گریسی کو کشمیر میں فوج اتارنے کا حکم دیا۔
تاہم جنرل ڈگلس گریسی نے ان کا یہ حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ جب بھارت نے کشمیر میں اپنا قبضہ مستحکم کر لیا تو جنرل ڈگلس گریسی کو فوج بھیجنے میں کوئی اعتراض نہیں تھا۔ لیکن تب بہت دیر ہو چکی تھی۔
تاہم اس وقت فوج نے کامیاب دفاع کرتے ہوئے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کا کامیاب دفاع کر لیا وگرنہ وہ بھی ہاتھ سے جانے کے امکانات تھے۔
اس حوالے سے کچھ مؤرخین اختلافی رائے بھی رکھتے ہیں کہ جنرل ڈگلس گریسی نے قائداعظم کا حکم ماننے سے انکار کیا تھا۔ لیکن اگر دیکھا جائے تو قائداعظم کشمیر پر حملے کی صورت میں خاموش نہیں رہ سکتے تھے . یوں یہ اختلافی رائے بظاہر کمزور محسوس ہوتی ہے۔