پنجاب کے شہر کامونکی میں 13 نومبر کو ایک دل دہلا دینے والا منظر سامنے آیا جب سیم نالے کے پاس کھیلتے بچوں کو ایک مشکوک تیرتا ہوا بیگ نظر آیا جسے کھولنے پر اس میں انسانی اعضاء پائے گئے۔
واقعہ کی اطلاع ملنے کے بعد پولیس نے بیگ بند لاش کو قبضے میں لے لیا جس میں ایک نوجوان جس کی عمر 25 یا 26 سال ہو گی کے کٹے ہوئے اعضاء پائے گئے۔
پولیس نے بیگ بند لاش کو پوسٹمارٹم کیلئے بھجوادیا جبکہ سوشل میڈیا پر مقتول کے چہرے کی تصاویر شیئر کی گئیں تا کہ ورثاء کا پتہ لگایا جاسکے کیونکہ پولیس ارد گرد کے علاقوں میں اعلان کرا چکی تھی اور وہاں کوئی وارث سامنے نہیں آیا تھا۔
ایک شخص نے سوشل میڈیا پر پوسٹ دیکھنے کے بعد پولیس سے رابطہ کیا اور یہ رابطہ کامونکی سے سے 300 کلومیٹر سے زائد دور ضلع وہاڑی کی تحصیل بورے والا سے تھا جہاں رابطے کرنے والے شخص نے بتایا کہ جس شخص کی تصویر شیئر کی جارہی ہے وہ ان کی بھائی ہیں جن کا نام ندیم سرور ہے۔
ندیم سرور کے بھائی نے پولیس کو بتایا کہ ان کے بھائی اسلام آباد میں ویٹر کا کام کرتے تھے اور 9 نومبر کو انہوں نے وہاں سے ایک دن کی چھٹی لی۔ تاہم 10 نومبر کو صبح سے ان سے رابطہ نہیں ہوپارہا تھا جس کے بعد اس کے نمبر بند ہونے پر بھائی نے 10 نومبر کو اسلام آباد کے تھانہ شہزاد ٹاؤن میں بھائی کی گمشدگی کا مقدمہ درج کرایا تاہم کچھ پتہ نہ چل سکا۔
پولیس نے پوسٹ مارٹم کے بعد لاش ورثاء کے حوالے کر دی جس پر ندیم سرور کی آبائی علاقے میں تدفین کر دی گئی۔ تاہم کئی سوالات باقی تھی کہ اسلام آباد میں نوکری کرنے والا نوجوان کامونکی کیسے پہنچا اور اسے کس نے مارا۔
پولیس نے مقتول کے زیر استعمال فون نمبرز کی تفصیل نکالی تو اسے ایک نمبر سے حادثے کے وقفے وقفے سے لمبے دورانیے کی کالیں موصول ہوئیں تھیں۔
پولیس کے مطابق یہ نمبر ایک خاتون کے زیر استعمال تھا جو اسی علاقے کی رہائشی تھیں جہاں سے پولیس کو ندیم کی لاش ملی تھی۔
مزید پڑھیں:برطانیہ میں قتل ہونے والی دس سالہ سارہ شریف کیس کا معمہ حل
پولیس نے لڑکی اور ان کے والد کو شامل تفتیش کیا جنہوں نے دوران تفتیش اقرار جرم کر لیا۔
ملزمان نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل ندیم اسی علاقے میں ایک فیکٹری میں ملازم تھا جب اس کے مذکورہ خاتون سے تعلقات تھے۔ تاہم وہ بعدازاں اسلام آباد جاب کیلئے چلا گیا تھا۔
ملزمان نے الزام عائد کیا کہ ندیم کے پاس لڑکی کی کچھ ویڈیوز تھیں جن پر وہ انہیں بلیک میل کر رہا تھا اور یوں یہ انتہائی قدم اٹھانا پڑا۔
تاہم ندیم کے بھائی نے ملزمان کے الزامات کو جھٹلاتے ہوئے کہا کہ پولیس میرٹ پر تفتیش کرے۔ ان کے بھائی کے پاس نازیبا ویڈیوز ہونے کا الزام غلط ہے کیونکہ وہ بٹن والا موبائل استعمال کرتے تھے تو اس میں ویڈیو کیسے بنائی جا سکتی ہے۔