تین ہفتے سے زائد اغواء رہنے کے بعد عمران خان کے وکیل انتظار حسین پنجوتھہ بالاآخر منظر عام پر آگئے۔ انہیں ایک گاڑی میں بندھا ہوا پایا گیا۔ میڈیا اور پولیس کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹس کو جب آپ انتظار حسین پنجھوتہ کی حالت سے ملا کر دیکھتے ہیں تو آپ کو بہت فرق نظر آتا ہے۔
میڈیا پریس ریلیز کے مطابق تھانہ صدر حسن ابدال کے ایریا میں ناکہ بندی پوائنٹ پر مشکوک گاڑی کو روکا گیا۔ گاڑی میں اغواء کار گینگ ایک شخص کو اغواء کر کے لے جا رہے تھے۔ گاڑی رکتے ہی گاڑی میں سوار اغواء کاروں نے پولیس ٹیم پر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی۔ پولیس نے حکمت عملی سے خود کو بچاتے ہوئے جوابی فائرنگ کی۔ اغواء کار گینگ اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مغوی اور گاڑی کو چھوڑ کر فرار ہو گئے۔ مغوی کو بخیریت پولیس نے تحویل میں لے لیا۔ مغوی کی شناخت انتظار پنجوتھہ کے نام سے ہوئی۔ پولیس نے علاقہ بھر میں ناکہ بندی کروا کر نامعلوم اغواء کاروں کی گرفتاری کیلئے سرچ آپریشن کا اغاز کر دیا ہے۔
پولیس کی جانب سے عمران خان کےوکیل انتظار حسین پنجوتھہ کی دو وڈیو بیان جاری کئے گئے۔ تاہم ان بیانات میں کئی بڑے جھول ہیں جو کئی کہانیوں کو جنم دے رہے ہیں۔
مزیدپڑھیں:صحافی اعزاز سید کی گاڑی سے خفیہ ڈیوائس ملنے کی کہانی
بیرسٹر فائزہ اقبال نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ سٹوری میں 5 بڑے بلنڈرز
1۔ ۔ پولیس “انتظار” کو نہیں پہنچان رہی تھی، لیکن “حسین” کا انہیں پہلے سے پتہ تھا۔
2۔ پولیس کو پہلے سے پتہ تھا کہ گاڑی چمکنی سے آرہی ہے، لیکن مقابلہ پنجاب کے حدود میں کرنا لازمی سمجھا گیا۔
3۔ ویسے لوگ جب پنجاب سے اغوا ہوتے ہیں تو کے پی، باڑہ، جمرود، افغانستان لیکر جایا جاتا ہے تاوان کیلئے، لیکن یہ اغوا کار انہیں پشاور سے پنجاب لاریے تھے۔
4۔ پہلے اغواء کار ہیں، جو بجائے گھر والوں سے تاوان کا مطالبہ کرنے کے، مغوی سے مطالبہ کرتے رہے۔
5۔ پولیس مقابلہ اسلئے ہوا کہ اغواء کاروں نے فائرنگ کی، پھر پولیس نے بھی فائرنگ کی، اندھیر بھی سخت تھا، جسکی وجہ اغواء کار بحفاظت نکل گئے، لیکن حیران کن طور پر اس قدر سخت اندھیرے میں گولی کسی کو نہ لگی۔