زاویہسیاست

پاک بھارت حالیہ کشیدگی: جنگی ماحول یا سیاسی اسٹریٹجی؟

پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، مگر حالیہ دنوں میں ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، مگر حالیہ دنوں میں ایک بار پھر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھتی جا رہی ہے۔

لائن آف کنٹرول پر فوجی نقل و حرکت، میڈیا پر جنگی بیانات اور سوشل میڈیا پر حب الوطنی کے جذبات کو ابھارنے والی مہمات — یہ سب ایک مرتبہ پھر اس خطے کو نازک مرحلے کی طرف لے جا رہے ہیں۔

لیکن سوال یہ ہے: کیا یہ واقعی ایک جنگ کا پیش خیمہ ہے یا دونوں حکومتیں اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے اس کشیدگی کو استعمال کر رہی ہیں؟

بھارت: مودی حکومت، قوم پرستی اور انتخابی مفادات

 

بھارت میں نریندر مودی کی حکومت انتخابات کے قریب ہے اور بی جے پی (BJP) کو ایک بار پھر عوامی حمایت درکار ہے۔

ماضی میں مودی سرکار نے قوم پرستی اور پاکستان مخالف بیانیے کے ذریعے انتخابی کامیابیاں حاصل کیں۔ 2019 کے پلوامہ حملے اور بالاکوٹ اسٹرائیکس کے بعد مودی نے خود کو “چوکیدار” کے روپ میں پیش کر کے ووٹ حاصل کیے۔

اس بار بھی یہی انداز اپنایا جا رہا ہے:

  • میڈیا پر مسلسل پاکستان کو دشمن نمبر ایک کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
  • فوجی نقل و حرکت اور جنگی بیانات سے عوام کے جذبات کو ابھارا جا رہا ہے۔
  • ملک میں موجود معاشی مشکلات، کسانوں کے احتجاج اور بے روزگاری جیسے حقیقی مسائل سے عوام کی توجہ ہٹائی جا رہی ہے۔

مودی سرکار جانتی ہے کہ جنگی ماحول میں عوامی رائے زیادہ تر “قومی سلامتی” کے نعرے کے پیچھے چلتی ہے، اور یہی اس کا سب سے بڑا کارڈ ہے۔

پاکستان: کمزور حکومت، مقبول لیڈر جیل میں اور اسٹیبلشمنٹ کی ساکھ

پاکستان میں صورتحال کچھ مختلف مگر اسی طرح سیاسی ہے۔ جنرل عاصم منیر کی ریٹائرمنٹ نومبر 2025 میں متوقع ہے اور موجودہ حکومت (پی ڈی ایم کی اتحادی شکل میں) ایک جعلی مینڈیٹ کی پیداوار سمجھی جا رہی ہے۔

عوام کی اکثریت عمران خان کو اصل لیڈر سمجھتی ہے، جو اس وقت جیل میں ہیں۔

  • عام تاثر یہ ہے کہ عمران خان کو عوامی حمایت کی وجہ سے راستے سے ہٹایا گیا، اور ایک کمزور، “غیر منتخب” حکومت مسلط کی گئی ہے۔
  • حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کو عوامی سطح پر شدید مخالفت کا سامنا ہے، جس کا اظہار سوشل میڈیا، جلسوں، اور عوامی رویے سے صاف ظاہر ہوتا ہے۔

ایسے میں پاکستان میں بھی یہ تاثر پایا جا رہا ہے کہ بھارت کے ساتھ کشیدگی کو جان بوجھ کر بڑھایا جا رہا ہے تاکہ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹا دی جائے اور فوجی قیادت کے لیے ایکسٹینشن یا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کا جواز پیدا کیا جا سکے۔

عوامی حمایت کا حال: دونوں طرف مایوسی اور غصہ

 

بھارت میں:

  • نوجوان طبقہ مودی حکومت کی معاشی پالیسیوں سے مایوس ہے۔
  • کسان تحریک اور نوکریوں کی کمی نے BJP کی ساکھ متاثر کی ہے۔
  • تاہم، جنگی بیانیہ اور مذہبی قوم پرستی مودی کو وقتی طور پر فائدہ دے سکتی ہے۔

پاکستان میں:

  • عوام کی اکثریت عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے، اور موجودہ حکومت کو “سیلیکٹڈ” اور “نکمی” قرار دیا جا رہا ہے۔
  • مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری اور قانون کی حکمرانی کے فقدان نے عوام میں بے چینی پیدا کر دی ہے۔
  • سوشل میڈیا پر صاف نظر آتا ہے کہ عوام موجودہ سیٹ اپ کو مسترد کر چکی ہے۔

جیوپولیٹیکل تناظر: امریکہ، چین، ایران، افغانستان اور اسرائیل کے سائے

 

امریکہ اور بھارت کی قربت

  • امریکہ بھارت کو چین کے مقابل ایک علاقائی اتحادی کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
  • امریکی اسلحہ، ٹیکنالوجی، اور تجارت کے معاہدے مودی سرکار کے لیے اہم ہیں۔
  • پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ماضی جیسی حمایت حاصل نہیں رہی، خاص طور پر چین-پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) کے بعد۔

 

مزید پڑھیں : بھارتی میڈیا جنگ میں انڈیا کی شکست کا باعث کیسے بنا


چین اور پاکستان کا تعلق

  • چین، جو بھارت کا اسٹریٹیجک حریف ہے، پاکستان کے ساتھ دفاعی اور اقتصادی تعاون بڑھا رہا ہے۔
  • اگر خطے میں کشیدگی بڑھی تو چین کا کردار بھی متحرک ہو سکتا ہے، خاص طور پر لداخ یا گلگت بلتستان جیسے حساس علاقوں میں۔


ایران، افغانستان اور اسرائیل کا اثر

  • افغانستان میں عدم استحکام پاکستان کے لیے خطرہ ہے، اور بھارت وہاں اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔
  • ایران اور اسرائیل کے درمیان حالیہ کشیدگی نے خطے میں امریکی مداخلت کو بڑھا دیا ہے۔
  • اسرائیل-بھارت تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں، جس سے پاکستان میں تشویش پائی جاتی ہے۔

نتیجہ: یہ جنگ نہیں، سیاسی کھیل ہے

 

موجودہ کشیدگی کو دیکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ حالات کسی بڑی جنگ کی طرف نہیں جا رہے بلکہ یہ ایک سیاسی شطرنج کا کھیل ہے جس میں دونوں ممالک کی حکومتیں اپنی عوامی حمایت بحال کرنے اور اندرونی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے کشیدگی کا ماحول بنا رہی ہیں۔

  • عوام دونوں طرف باشعور ہو رہی ہے، مگر میڈیا اور ریاستی بیانیہ اب بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
  • اصل حل صرف جمہوری اقدار کی بحالی، شفاف انتخابات، اور خطے میں امن کی کوششوں سے آ سکتا ہے۔
  • اگر عوام نے شعوری فیصلے نہ کیے تو یہ سیاسی کھیل بار بار دہرایا جائے گا — کبھی جنگ کے نام پر، کبھی دشمنی کے نام پر۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button