
پہلگام حملے کے بعد پہلی ملاقات ہوتے ہی عمران خان کا واقعہ کے بعد پیدا ہونی والی صورتحال پر مؤقف آ گیا۔
یوں تو کئی ہفتوں سے عمران خان کی بہنوں اور پارٹی کی جانب سے دیئے جانے والے ناموں کو عمران خان سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم جن چند وکلاء کو ملاقات کی اجازت ملتی ہے ان کے توسط سے عمران خان کا پیغام پہنچایا گیا۔
اپنے بیان میں عمران خان نے پہلگام میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے متاثرین کے اہل خانہ سے ہمدردی کا اظہار کیا۔
مودی حکومت کو ایک بار پھر شٹ اپ کال:
اپنے دورِ حکومت میں پلوامہ فالس فلیگ آپریشن کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان نے مودی سرکاری کو ایک بار پھر شٹ اپ کال دے دی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ "پلوامہ کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھی ہم نے بھارت کو مکمل تعاون کی پیشکش کی تھی، لیکن بھارت کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکا۔
میری 2019 میں کی گئی پیشن گوئی کے مطابق ایک بار پھر ویسا ہی پہلگام واقعے کے بعد بھی ہو رہا ہے۔ خود احتسابی یا شفاف تحقیقات کی بجائے مودی سرکار نے ایک مرتبہ پھر پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے۔”
سابق وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ایک ڈیڑھ ارب کی آبادی والے ملک کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے، نہ کہ ایسے خطے میں اشتعال انگیزی جسے پہلے ہی “جوہری فلیش پوائنٹ” کہا جاتا ہے۔ پاکستان امن کو ترجیح دیتا ہے، لیکن ہماری امن پسندی کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔ پاکستان کے پاس ہر وہ صلاحیت موجود ہے جس سے وہ کسی بھی بھارتی جارحیت کا بھرپور جواب دے سکتا ہے، جیسا کہ ایک متحد قوم کی مکمل حمایت یافتہ تحریک انصاف کی حکومت نے 2019 میں دیا تھا۔
کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت:
کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی ایک بار پھر حمایت کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ” میں نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ہمیشہ کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کی حمایت کی ہے۔”
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ "میں مسلسل یہ بات اجاگر کرتا رہا ہوں کہ آر ایس ایس کے نظریے کے تحت چلنے والا بھارت نہ صرف اس خطے بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم، جو آرٹیکل 370 کے غیر قانونی خاتمے کے بعد مزید بڑھ گئے ہیں، کشمیری عوام کی آزادی کی خواہش کو مزید تقویت دے رہے ہیں۔”
نواز شریف اور آصف زرداری کی کلاس :
بانی پی ٹی آئی نے نواز شریف اور آصف علی زرداری کی کلاس لے لی۔ اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف یا آصف زرداری جیسے مفاد پرست سیاستدانوں سے بھارت کے خلاف کسی مضبوط مؤقف کی توقع رکھنا محض بیوقوفی ہے۔
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آصف زرداری اور نواز شریف کبھی بھارت کے خلاف بولنے کی جرأت نہیں کریں گے کیونکہ ان کا ناجائز پیسہ اور کاروباری مفادات بیرون ملک ہیں۔ وہ غیر ملکی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور انہی مفادات کے تحفظ کے لیے بھارت کی جارحیت اور پاکستان پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات پر خاموش رہتے ہیں۔ ان کا ڈر صرف یہ ہے کہ اگر انہوں نے سچ بولا تو بھارتی لابیاں ان کے آف شور اثاثے منجمد کروا سکتی ہیں۔
اتحاد کا درس:
عمران خان نے اختلاف بھلا کر ایک بار پھر اتحاد کا درس دیتے ہوئے کہا کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج پاکستانی قوم ایک جعلی اور دھاندلی ذدہ فارم 47 رجیم کے باعث تقسیم ہو چکی ہے، لیکن مودی کی جارحیت نے پاکستانی عوام کو بھارت کے خلاف ایک آواز میں متحد کر دیا ہے۔
بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ ہم اس جعلی حکومت کو مسترد کرتے ہیں، لیکن من حیث القوم بھارت کی جنگی جنون اور خطے کے امن کو داؤ پر لگانے والے عزائم کی سختی سے مذمت کرتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی بھی بیرونی دشمن کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے قوم کا اندرونی طور پر متحد ہونا ضروری ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان تمام اقدامات کو روکا جائے جو قوم میں مزید تقسیم پیدا کر رہے ہیں۔ ریاست کی تمام توانائیاں سیاسی انتقام پر صرف ہونا اس نازک وقت میں قوم کی داخلی یکجہتی کو کمزور کر رہا ہے اور بیرونی خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہو رہا ہے-