عمران خان کو اپنے آبائی حلقے میانوالی سے اب تک کا سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے جہاں ان کی پارٹی کے سینئر رہنما امجد علی خان نے پارٹی سے راہیں جدا کرتے ہوئے الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
میانوالی کے دو قومی اسمبلی کی سیٹوں میں سے ایک پر عمران خان خود الیکشن لڑتے آئے ہیں جبکہ دوسری سیٹ پر امجد علی خان پاکستان تحریک انصاف کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑتے رہے ہیں۔ دونوں سیٹوں پر پی ٹی آئی امیدوار 2018 میں ایک لاکھ سے زائد کی برتری سے الیکشن جیتے تھے۔
تاہم امجد علی خان نے آج پارٹی سے راہیں جدا کرتے ہوئے 8 فروری کو ہونے والے الیکشن میں بھی حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
پی ٹی آئی کیلئے یہ بڑا سیٹ بیک اسلیئے بھی ہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما اغواء کر لیئے جاتے تھے اور اس کے بعد وہ استحکام پاکستان پارٹی کے دفتر سے برآمد ہوتے اور شمولیت کا اعلان کرتے یا پھر پریس کلب میں پارٹی رکنیت اور سیاست سے دستبرداری کا اعلان کرتے۔ کئی رہنماوؤں نے ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے بھی پارٹی چھوڑی۔ تاہم امجد علی خان کا ایک مختلف نوعیت کا کیس تھا۔
مزید پڑھیں: اسلام آباد کی 3 نشستوں پر کتنے امیدوار مدمقابل؟
پی ٹی آئی نے نئی حکمت عملی کے تحت فیصلہ کیا تھا کہ اب رہنما عدالت میں جا کر سرنڈر کریں گے اور وہاں سے ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا جائے گا تاکہ اغواء اور تشدد کے راستے سے بچا جا سکے۔
امجد علی خان اس سلسلے کی پہلی کڑی تھے۔ انہوں نے سرگودھا کی انسداد دہشت گردی عدالت کے سامنے سرنڈر کیا اور ساتھ میں بیان بھی دیا کہ اگر ان پر تشدد کے ذریعے بیان لیا گیا تو وہ سچ تسلیم نہ کیا جائے۔
عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے کے باوجود بھی ان کی گرفتاری کے بعد تشدد کے خبریں سامنے آتی رہیں۔ اور آج انہوں نے باقاعدہ طور پر پارٹی چھوڑنے کا فیصلہ کیا تو اس سے عمران خان کی جانب سے بنائی گئی نئی پالیسی دم توڑتی نظر آئی جس میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ عدالت کے سامنے سرنڈر کرنے سے تشدد اور زبردستی پارٹی چھڑوانے سے روکا جا سکے گا۔
راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے نوجوان رہنما عمر تنویر بٹ نے بھی اسی سکیم کے تحت گرفتاری دی اور عدالت کے سامنے سرنڈر کیا۔ تاہم ان کے کیس میں بھی یہ حکمت عملی کام نہ آئی۔
امجد علی خان کے پی ٹی آئی چھوڑنے اور الیکشن نہ لڑنے سے عمران خان کے آبائی حلقے میں بہت بڑی دراڑ پڑی ہے اور اب یہ دیکھنا ہوگا کہ ان کی جگہ کسے میدان میں اتارا جاتا ہے۔