تقریباً 207 سال قبل امریکی شہر کیمبرج میں ہارورڈ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم کے لیے الگ ڈیپارٹمنٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ آگے چل کر اسی ڈیپارٹمنٹ نے ہارورڈ لا سکول کے نام سے بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ موجودہ دور میں ہارورڈ لا سکول دنیا میں قانون کی تعلیم دینے والا نمبر ون ادارہ بن چکا ہے جہاں سے پڑھ کر نکلنے والے انصاف کے عالمی اداروں کے سربراہوں سے لے کر امریکی صدر جیسے طاقتور اور اہم ترین عہدوں تک پہنچتے ہیں۔
ہر تعلیمی ادارے کا ماٹو یا نعرہ ہوتا ہے جس سے اس کے عظیم تر مقصد کا اظہار ہوتا ہے۔ ہارورڈ لا سکول کا نعرہ ہے سچ، قانون اور انصاف۔ اس کے لوگو کو دیکھیں تو لاطینی زبان میں ’قانون اور انصاف‘ نیچے لکھا گیا ہے جبکہ ’سچ‘ کو ان دونوں کے اوپر رکھا گیا ہے یعنی یہاں سچ کو معتبرترین مقام حاصل رہے گا۔ یہاں سے پڑھ کر نکلنے والے انسان ہوتے ہیں اس لیے ضروری تو نہیں کہ سبھی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں سچ کو ہی معتبر ترین مانیں اور قانون و انصاف کے رستے پر چلیں۔
23 ستمبر سن 1941 کو جنوبی افریقہ کے شہر ڈربن میں پیدا ہونے والی نوی پِلّے مقامی انڈین کمیونٹی کے عطیات سے تعلیم حاصل کرتی ہوئی ہارورڈ لا سکول جا پہنچیں۔ انہوں نے یہاں سے پہلے ایل ایل ایم اور پھر ڈاکٹریٹ کی ڈگریاں مکمل کیں۔ ’سچ، قانون اور انصاف‘ کے ساتھ ان کی وابستگی دیکھتے ہوئے سن 1995 میں نیلسن منڈیلا نے انہیں ہائی کورٹ آف ساؤتھ افریقہ کی جج مقرر کر دیا۔ انسانی حقوق کے لیے ان کی انتھک خدمات اور مہارت کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسی سال انہیں ’انٹرنیشنل کمریمنل ٹربیونل فار روانڈا‘ منتخب کر لیا۔ سن 1999 میں نوی پِلّے کو اس ٹربیونل کی صدر منتخب کر لیا گیا۔ وہ سن 2008 میں انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کی جج بنیں اور اسی سال انہیں دنیا میں انسانی حقوق کے سب سے بڑے عہدے ’یونائیٹڈ نیشن ہائی کمنشر فار ہیومن رائٹس‘ مقرر کر دیا گیا۔
نوی پِلّے نے ’سچ، قانون اور انصاف‘ کے رستے میں کبھی کسی کو حائل نہیں ہونے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی شدید مخالفت اور دباؤ کے باوجود انہوں نے ہمیشہ فلسطینیوں کے حقوق پر انتہائی مضبوط آواز اٹھائی۔ نوی پِلّے نے امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو دفاعی نظام ’آئرن ڈوم‘ دینے کو نا انصافی قرار دیتے ہوئے غزہ میں بستے فلسطینیوں کے لیے بھی ایسے ہی دفاعی نظام کا مطالبہ کیا۔ ہارورڈ سے نکلنے کے بعد انہوں نے ساری عمر اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہارورڈ لا بلیٹن نے ڈاکٹر نوی پِلّے کی کامیابیوں کو فخر کے ساتھ شائع کیا۔
14 نومبر سن 1959 کو امریکی شہر ملٹن میں پیدا ہونے والے بریان سٹیونسن بھی ڈاکٹر نوی پِلّے کی طرح ہی قانون کی دنیا کے افق پر ایک چمکتا ستارہ ہیں۔ انہوں نے بھی ساری عمر اپنی مادرِ علمی کے نعرے ’سچ، قانون اور انصاف‘ کو مشعلِ راہ بنائے رکھا۔ سٹینونسن نے اپنی وکالت کے آغاز سے ہی اقلیتوں اور بچوں کے ساتھ قانون میں برتے جانے والے تعصب کو ہدف بنایا۔ انہوں نے اپنی دلیلوں سے ثابت کیا کہ امریکہ کی جنوبی ریاستوں میں غلامی کی تاریخ کے باعث اب بھی سیاہ فاموں کی سزائے موت کی شرح بہت زیادہ ہے۔ سٹیونسن نے ایسے کئی سیاہ فام ملزموں کے مقدمے لڑ کر ان کی زندگی بچائی جنہیں عدالتیں سزائے موت سنا چکی تھیں۔ انہی میں سے ایک کیس پر سٹیونسن نے ’جسٹ مرسی‘ کے نام سے یادداشت لکھی جس پر ہالی وڈ کی فلم بھی بنی۔
انسانی حقوق کے لیے امریکی قانون میں سٹیونسن کے مقدمات انتہائی اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ یہ سٹیونسن ہی تھے جنہوں نے 17 سال سے کم عمر بچوں کو عمر قید سزا کے ساتھ پیرول کو لازمی قرار دلوایا۔ انہوں نے ہی امریکی سپریم کورٹ میں ڈیمنشیا کے مریضوں کو سزائے موت دینے پر پابندی عائد کرائی۔ سٹیونسن نے ریاس الاباما میں ’ایکوئل جسٹس انیشی ایٹو‘ قائم کر کے سزائے موت کے قیدیوں کو مفت قانونی مدد فراہم کی۔ امریکہ میں غلامی اور سیاہ فاموں کے حقوق ان کی خاص دلچسپی کا موضوع رہے ہیں۔ انہوں نے دورِ غلامی میں سولی چڑھائے جانے والے 4000 سے زائد سیاہ فاموں کی یاد میں ’نیشنل میموریل فار پیس اینڈ جسٹس‘ تعمیر کیا۔ امریکہ میں نسلی جبر کا ریکارڈ رکھنے کے لیے ’لیگیسی میوزیم‘ بھی بنوایا۔ یہ دونوں عمارتیں ریاست الاباما میں قائم کی گئیں ہیں۔ اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں سے نیشنل ہیومینیٹیز میڈل تک، دنیائے قانون کا شاید ہی کوئی ایوارڈ ہو جو بریان سٹیونسن کو انسانی حقوق کے لیے لڑنے کے صلے میں نہ ملا ہو۔ ہارورڈ لا سکول کو بریان سٹیونسن کی خدمات پر اتنا فخر ہے کہ اپنے بلیٹن کے سرّورق پر ان کی تصویر شائع کر کے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
مزید پڑھیں:ڈی چوک کے نامراد گدھ
23 دسمبر سن 2022 کو پی ڈی ایم حکومت نے منصور عثمان اعوان کو اٹارنی جنرل تعینات کیا۔ اخبارات میں شائع ہونے والی ان کی تعیناتی کی خبر میں بتایا گیا کہ موصوف ہارورڈ لا سکول کے تعلیم یافتہ ہیں۔ وہی ہارورڈ لا سکول جہاں سے پڑھ کر نکلنے والے ’سچ، قانون اور انصاف‘ کے رستے پر چل کر اپنے حصے کی دنیا بدل دیتے ہیں۔ منصور اعوان نے پنجاب یونیورسٹی لا کالج سے گولڈ میڈل حاصل کیا تو ہارورڈ لا سکول میں بھی ان کی شاندار کارکردگی پر انہیں ’ڈینز ایوارڈ فار لیڈرشپ‘ سے نوازا گیا۔ ایسے قابل رشک تعلیمی کیرئیر کے حامل شخص سے یہ امید باندھی جا سکتی تھی کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی انتہائی بری صورتحال کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔
منصور عثمان اعوان کے اٹارنی جنرل بننے کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق کی شاید ہی کوئی خلاف ورزی باقی بچی ہو جو نہ ہوئی ہو۔ حکومت انتخابات کرانے کے عدالتی حکم ردی کی ٹوکری میں پھینکتی رہی، بڑی سیاسی جماعت کا نشان اور پھر عوامی مینڈیٹ چھین لیا گیا، سیاسی جماعت کو چھینے گئے مینڈیٹ کے بعد مخصوص نشتوں سے بھی محروم کر دیا گیا، عام شہریوں کو فوجی عدالتیں سزائیں سناتی رہیں، پولیس نے شہریوں کے گھروں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کے ریکارڈ توڑ دئیے، ہائیکورٹس کے معزز جج اداروں کی عدلیہ میں مداخلت کی دہائیاں دیتے رہے، حکومت نے ارکان اسمبلی اغوا کر کے آئینی ترمیم کر لی، دارالحکومت کی سڑکوں پر عام سیاسی کارکن مارے گئے، صحافیوں کو دوران ڈیوٹی اور گھروں سے اٹھا لیا گیا، ٹویٹر پر پابندی اور فائر وال لگا کر شہریوں کی ڈیجیٹل آزادیاں بھی چھین لی گئیں، ’سچ، قانون اور انصاف‘ کا سبق پڑھ کر نکلنے والا ہارورڈ گریجویٹ منصور اعوان یا تو اس فاشزم کا دفاع کرتا رہا یا خاموشی سے تماشہ دیکھتا رہا۔
ہارورڈ لا کالج کے بہت سے پروگرامز میں ایک ’اینیمل لا اینڈ پالیسی پروگرام‘ بھی شامل ہے جس میں قانونی نظام کے ذریعے جانوروں سے سلوک بہتر بنانے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ کاش ہمارے منصور عثمان اعوان نے ہارورڈ میں اسی پروگرام میں داخلہ لے لیا ہوتا، شاید انہیں یہاں بسنے والے 24 کروڑ جانوروں سے سلوک بہتر بنانے کا خیال آ جاتا۔