
"ہیپی برتھ ڈے عمران خان” سوشل میڈیا پر یہ ٹرینڈ اس وقت بہت وائرل ہے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان آج اپنی 73 واں یوم پیدائش منا رہے ہیں اور اسی مناسبت سے یہ ٹرینڈ وائرل ہو رہا ہے۔
5 اکتوبر 1952 کو لاہور میں پیدا ہونے والے عمران خان اپنی زندگی کی 73 بہاریں دیکھنے کے بعد بھی پاکستان کے مقبول ترین افراد میں سے ایک ہیں۔
ان کی مقبولیت کا اندازہ لگانا ہو تو یہ دیکھ لیں کہ وہ گزشتہ دو سال سے قید میں ہیں لیکن آج بھی ان کا نام پر جگہ آتا ہے۔
گلی محلے کی بحث سے لیکر پارلیمنٹ کے سیشن تک، مین سٹریم میڈیا سے لیکر ڈیجیٹل میڈیا تک، طاقت کے ایوانوں سے عدل کے کٹہروں میں ہر جگہ ان کا نام ہی گونج رہا ہے۔
مثبت و منفی کی بحث چھوڑ کر صرف ذکر تک بات محدود کر دی جائے تو یہ کہنا بجا نہ ہوگا کہ عمران خان پاکستان کا سب سے سدا بہار موضوع ہے۔
کرکٹ والا عمران خان:
1973میں اپنے کرکٹ کیرئیر کا آغاز کرنے والے عمران خان دنیا کے سب سے بڑے آل راؤنڈرز کی فہرست کا آج بھی حصہ ہیں۔ کرکٹ میں ان کے کئی ریکارڈ آج بھی کسی توڑنے والے کی تلاش میں ہیں۔
اپنے 21 سالہ کرکٹ کیرئیر میں عمران خان نے 88 ٹیسٹ میچز میں 3807 رنز بنائے۔ ساتھ ہی انہوں نے 362 وکٹیں بھی حاصل کیں۔
عمران خان ون ڈے کیرئیر میں 175 میچز کھیلے اور 3709 رنز بنائے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے 182 وکٹیں بھی حاصل کیں۔
صرف ایک کھلاڑی نہیں، بطور کپتان ان کا کھیل آج بھی کرکٹ کی دنیا میں مشعلِ راہ ہے۔
ان کے ساتھی کھلاڑی بھی عمران خان کے دعویٰ کی تصدیق کرتے ہیں کہ عمران خان ہار نہ ماننے والا کھلاڑی تھا۔ وہ آخری گیند تک لڑنے کا درس دیتا تھا۔
ان کی اسی کپتانی صلاحیتوں نے 1992 میں پاکستان کو ورلڈکپ کا تحفہ دیا۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی ریٹائرمنٹ کی تین دہائیوں کے بعد بھی ان کے کئی ریکارڈ موجود ہیں جو نہیں ٹوٹ پائے۔ اس کے ساتھ ان کے مداح آج بھی ان کی کرکٹ کھیلنے کے انداز کو نہیں بھولے۔
کرکٹ کی دنیا سے انسان دوستی کا سفر:
عمران خان نے کرکٹ کی دنیا کو خیر آباد کہہ کر انسان دوستی کا سفر اپنایا تو یہاں بھی ہار نہ ماننے کے فلسفے پر چلے۔
اپنی ماں کو کینسر سے مرتا دیکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان میں کینسر کے علاج کا سب سے بڑا ہسپتال بنائیں گے۔
وہ مستحق مریضوں کے مفت علاج کی باتیں اور پاکستان میں کینسر کا ہسپتال بنانے کی بات کرتے تو ناقدین ان کا مذاق بنایا کرتے تھے۔
پھر دنیا نے دیکھا کہ سال 1994میں انہوں نے اپنی والدہ کے نام سے لاہور میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کی بنیاد رکھ دی۔
یہ خیراتی ہسپتال تھا اور ناقدین کہتے تھے کہ یہ منصوبہ جلد ٹھپ ہو جائےگا۔
پر عمران خان ڈٹا رہا اور یہ منصوبہ چلتا رہا۔ آج اس منصوبے کو 30 سال گزر چکے ہیں، اور یہ پورے قد سے کھڑا ہے۔
نہ صرف پورے قد سے کھڑا ہے بلکہ اس کی صف میں دو مزید شوکت خانم ہسپتال بن گئے ہیں، ایک پشاور اور دوسرا اب تکمیل کے مراحل میں شوکت خانم کینسر ہسپتال کراچی۔
آکسفورڈ جیسے تعلیمی اداروں کا گریجویٹ پاکستان میں بھی تعلیم کے شعبے میں انقلاب لانا چاہتا تھا۔
اب کی بار بھی اس کا مذاق اڑایا گیا، لیکن اس نے کر دکھایا۔ اس نے اپنے آبائی علاقے میانوالی کے ایک دور افتادہ گاؤں میں نمل یونیورسٹی کی بنیاد رکھ دی۔
اس یونیورسٹی میں پڑھتے ہوئے نوجوانوں کو برطانوی یونیورسٹی بریڈ فورڈ کی ڈگری ملنے لگی۔
اب یہ ادارہ پھل پھول کر ایسے مقام پر پہنچ چکا ہے کہ یہاں سے فارغ التحصیل طلباء دنیا بھرمیں اپنے قابلیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
سیاست کا تھکا دینے والا سفر اور ہار نہ ماننے والا عمران خان:
عمران خان نے سیاسی میدان میں بھی تبدیلی کے نعرے سے قدم رکھا تو مدمقابل کئی بڑے خاندان تھے جو ان کا سیاسی کیرئیر ہڑپ کرنے کو تیار تھے۔
سیاسی مخالفین، ڈکٹیٹرز ، کردار کشی کے مہم اور کٹھن راستوں سے سفر کرتے ہوئے وہ بالاآخر 2018 میں وزارتِ عظمیٰ کےمنصب پر پہنچے۔
تاہم یہاں وہ اپنی اننگز پوری نہ کر پائے۔ لیکن پھر بھی جو وقت گزارا وہ آج بھی ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں مقام رکھتا ہے۔
ہار جیت کھیل کے ساتھ ساتھ سیاست کا بھی حصہ ہے، یوں عمران خان نے اس پہلے تجربے میں کئی غلطیاں بھی کئی اور ان سے سیکھا بھی۔ لیکن اپنے اصولوں کو نہ چھوڑا۔
حکومت سے نکالے جانے کے بعد ان کے خلاف مقدمات بنائے جانے لگے اور بالاآخر وہ 5 اگست 2023 کو گرفتار ہوئے اور وہ تب سے جیل میں ہیں۔
ان پر آئے روز مقدمات بنائے گئے اور یہ کیسز کی تعداد اب 200 کے قریب بتائی جاتی ہے۔
لیکن ان کیسز کی وقعت اتنی ہے کہ اگر یہ عدالتوں میں سماعت کیلئے مقرر کر دیئے جائیں اور منصف کو اجازت دے دی جائے کہ وہ حق پر فیصلہ کرے تو یہ مقدمات ایک سماعت کے بعد ہی ختم ہو جائیں ۔
ان سیاسی نوعیت کے مقدمات میں انہیں ملوث رکھنے کیلئے قانون سے کھلواڑ کیا گیا۔
عدلیہ کا مکمل ڈھانچہ بدل کر رکھ دیا گیا۔ سیشن کورٹ سے سپریم کورٹ تک ، نظام عدل کی ہر سیڑھی پر عمران خان کو گرانے کا ہر حربہ اپنایا گیا۔
تمام تر ہتھکھنڈوں کے باوجود آج ہر ٹی وی شو، ہر سیاسی مخالف کی زبان، ہر پارلیمنٹ کی سیشن، ہر گلی محلے کی گفتگو میں ہر جگہ عمران خان ہی زیربحث موضوع ہے۔
ہیپی برتھ ڈے عمران خان:
ہیپی برتھ ڈے عمران خان کا ٹرینڈ آج سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہا ہے تو اس پر بھی جیل میں بیٹھے عمران خان کو کوئی محنت نہیں کرنا پڑی۔
ان کے چاہنے والے ان کا نام ہر ممکن حد تک زندہ رکھے ہوئے ہیں۔
جیل سے ان کا ایک اعلان باہر کی دنیا بدل دیتا ہے۔ اکثر سیاسی تجزیہ نگار اس پر کچھ ایسا تبصرہ کرتے ہیں کہ جیل میں بیٹھا قیدی نمبر 804 یوں لگتا ہے کہ خود آزاد ہے اور اس نے باقی سسٹم کو قید کر رکھا ہے۔
اس سے جیل میں مل کر آنے والا ہر شخص کہتا ہے کہ وہ قید تنہائی کاٹ رہا ہے لیکن شکوہ نہیں کر رہا، ویسا ہی ہشاش بشاش ہے۔
اس کے اہلخانہ کو اس سے نہیں ملنے دیا جاتا، قانونی ٹیم کو رسائی نہیں، اہلیہ کو ہدف بنا کر کمزور کیا جاتا ہے، لیکن وہ ہار ماننے کو تیار نہیں۔
آج ایک خبر آئی کے اڈیالہ جیل کے قریب عمران خان کی سالگرہ منانے آنے والے سات افراد کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان سب کا جرم یہ تھا کہ وہ یہ کہہ رہے تھے "ہیپی برتھ ڈے عمران خان”۔