ہمارے ترقیاتی منصوبے کم عمر کیوں‌ہوتے ہیں؟

کسی عقلمند شخص نے لیڈر اور سیاستدان میں یہ فرق بتایا تھا کہ سیاست دان اگلے الیکشن کا سوچتا ہے جبکہ لیڈر اگلی نسلوں کو سوچتا ہے.
افسوس کے پاکستان میں قیام پاکستان میں حصہ لینے والے قائدین کے وفات کے بعد لیڈرز کے بحران کا سامنا رہا ہے .پاکستان کی قسمت میں ہمیشہ سیاستدان ہی آئے ہیں جو اگلی نسلوں کا سوچنے کے بجائے اگلے الیکشن کا سوچتے ہیں.
پاکستان میں ہر سال ترقیاتی فنڈز کے نام پر بے تحاشا بجٹ بہایا جاتا ہے. یہ بجٹ شاید دفاع کے بعد سب سے بڑا بجٹ ہوتا ہے. تاہم اس بجٹ کے تحت لگائے گئے ترقیاتی منصوبے ملک کی ترقی کے لئے نہیں اگلے الیکشن کے لیے لگائے جاتے ہیں .
ایسے میں ترجیحات کا فرق بھی دیکھنے کو ملتا ہے. جو دکھتا ہےو ہ بکتا ہے. سیاستدان انہی منصوبو ں‌پر خرچ کرتے جو آنکھوں‌سے نظر آئیں. تعلیم و تربیت اور صحت جیسے معاملات کبھی اس بجٹ کے راستے سےبھی نہیں‌گزرتے کیونکہ یہ دکھتےنہیں‌اس لیئے بکتے نہیں‌ہیں.
سیاستدان اکثر بڑے شہروں کی ترقیاتی منصوبے کا سوچتے ہیں‌کیونکہ ان شہروں میں‌اقتدار کے حصول میں زیادہ سیٹیں میسر آتی ہیں. ایسے میں‌ایک ٹرانسپورٹ سہولت ہوتے ہوئے بھی بڑے شہر میں دوسرے منصوبے کا سنگ بنیاد رکھ دیا جاتا ہےجبکہ چھوٹے شہر میں‌بنیادی ضروریات کو بھی نظر انداز کردیا جاتا ہے.
ان ترقیاتی منصوبوں کی عمر بہت کم ہوا کرتی ہے . اکثر حکومت اپنے جاتے ساتھ ہی ان منصوبوں کو بھی لے جاتی. من پسند ٹھیکیدار اس سودے سے خوب پیسے کماجاتے تاہم ایک غریب ملک کو یہ نقصان ریکارڈ خسارے کی صورت میں‌اٹھانا پڑتا ہے.
اکثر نئی حکومت آتے ہی گزشتہ حکومت کے تمام پراجیکٹ بند کرنے پر تلی ہوتی ہے .ایسے میں اکثر سالوں‌عوام کو نامکمل منصوبوں‌کی خاک چاٹنا پڑتی ہے.
آپ کی نظر سے ابھی ایک حکومت کی تبدیلی گزری ہے آپ ان تمام عوامل کااپنے نظر سے مشاہد ہ کر سکتے ہیں.نوجوان جنہیں‌ملک کا مستقبل کہا جاتا ہے ان کی ترقی کو مدنظر رکھنے کی بجائے انہیں‌لیپ ٹاپ اور چند سو روپے کی سکالرشپ دے کر حکمران اپنے فرض‌کی ادائیگی کا اعلان کر دیتے اور نوجوان ان کے زندہ باد کے نعرے لگاتے نہیں‌تھکتے .

مزید پڑھیں‌:‌ہمیں کیسا تعلیمی نظام چاہیے

یہ عمل صرف تعمیراتی شعبے تک محدود نہیں. ہم ہر سال کی طرح‌اس سال بھی بدترین سموگ سے گزر رہے ہیں. ساتھ ہی عہد کر رہے ہیں‌کہ آئندہ کیلئے اب ہم پودے اگائیں‌گے اور ماحولیاتی آلودگی کو کنٹرول کریں‌گے . لیکن افسوس ہماری شجر کاری بھی ایک سالہ ہی ہوتی ہے. ہم شجرکاری کے سیزن میں‌ایسے پودے لگاتے ہیں کہ اگلے ہی سال اسی جگہ پر دوبارہ پودے لگانے کی جگہ بن جاتی ہے.
وقت آ گیا ہے کہ عوام خود نگران بنے. تمام ترقیاتی منصوبوں پر نظر رکھی جائے .کریڈٹ لینے والے ہر سیاستدان کو بتایا جائے کہ جناب آپ ہمارے ووٹوں سے اسی کام کو آئے تھے اور آپکو ہمارے نوٹوں‌سے اسی کام کی تنخواہ ملتی ہے . لٰہذا کریڈٹ کا چکر چھوڑیں‌کا م کریں.
جس دن وطن عزیز کو ایسی نگران عوام میسر آ گئی اس دن ملک میں‌حقیقی لیڈر پیدا ہونگے جو الیکشن کا نہیں‌نسلوں‌کا سوچیں‌گے.

اپنا تبصرہ بھیجیں