حکومت کیلئے آئینی ترامیم کا راستہ ہموار، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ

حکومت کیلئے آئینی ترامیم کا راستہ ہموار ہو گیا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 63 اے کیس میں نظرثانی درخواستوں کو منظور کرلیا جس کے بعد اب پارٹی پالیسی سے منحرف اراکین کا ووٹ شمار ہو گا ۔
عدالت نے منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے دو سال قبل جسٹس منیب اختر کی جانب سے تحریر کئے گئے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔ اس کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔ فیصلہ 0-5 سے جاری کیا گیا۔
آج سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران بطور وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے عمران خان کی جانب سے عدالت میں ویڈیو لنک کی پیشی کی درخواست دائر کی جسے رد کر دیا گیا۔
بعدازاں علی ظفر نے سخت دلائل بھی دیئے جس میں انہوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہارس ٹریڈنگ کی اجازت قرار دیا۔ بعدازاں انہوں نے عدالتی سماعت کا بائیکاٹ کر دیا۔
لیکن اس بائیکاٹ کے فوری بعد ہی انہیں جب چیف جسٹس کی جانب سے عدالتی معاون بننے کی آفر دی گئی تو انہوں نے اسے فوراً قبول کر لیا۔
مزید پڑھیں:63 اے نظرثانی کیس کیا ہے اور اس سے پی ٹی آئی کو کیا خطرہ ہے
بعدازاں انہوں نے بطور عدالتی معاون دلائل جاری رکھے۔ ان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ شاید ایک دن تک فیصلہ سنایا جائے۔ تاہم عدالت نے آج ہی یہ فیصلہ جاری کردیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے سینئر صحافی بشارت راجہ نے لکھا کہ جس کیس میں عمران خان فریق ہو اور وہ کیس قاضی القضاۃ قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت میں ہو اُس کا فیصلہ آئین اور قانون نہیں بلکہ خواہشات کے مطابق دیا جاتا ہے۔
صحافی زبیر علی خان نے لکھا کہ کینگرو کورٹ آف پاکستان نے فلور کراسنگ کی اجازت دیدی۔
یاد رہے کہ 63 اے کی تشریح کیلئے تحریک انصاف حکومت نے 2022 میں سپریم کورٹ میں ایک آئینی درخواست دائر کی تھی جس پر عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ منحرف رکن کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔
تاہم اب عدالت نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے اور اب منحرف رکن کا ووٹ شمارہو گا جس سے حکومت کو نمبر گیم پوری کرنے میں آسانی ہوگی اور آئینی ترامیم کا راستہ ہموار ہو گا۔