
گلوبل صمود فلوٹیلا جو کہ انسانی امداد پر مشتمل دنیا کا سب سے بڑا بحری قافلہ ہے، اس وقت غزہ کے بالکل قریب پہنچ چکا ہے۔
ہائی رسک ایریا میں پہنچنے کے بعد گلوبل صمود فلوٹیلا کو تحفظ فراہم کرنے سے متعلق بھی آواز بلند کی جارہی ہے۔
50 سے زائد بحری جہازوں اور دنیا کے تقریباً 44 ممالک کے سینکڑوں لوگوں پر مشتمل یہ قافلہ غزہ ساحل کے تقریبا 150 ناٹیکل مائل یعنی کہ تقریباً 278 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
گلوبل صمود فلوٹیلا کیا ہے؟
گلوبل صمود فلوٹیلا کا لفظ عربی زبان سے ماخوذ ہے جس کے مطلب استقامت اور مزاحمت کے ہیں۔
جولائی میں انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیوں، انسانی حقوق کے ایکٹویسٹ نے مل کر غزہ میں جنم لیتے انسانی المیے کو ختم کرنے کیلئے سمندری راستے سے غزہ پہنچنے کا فیصلہ کیا ۔
اس قافلے کے دو مقاصد ہیں ؛ اول غزہ میں انسانی امداد پہنچنے کی راہ میں اسرائیلی رکاوٹ کو سویلین طاقت سے توڑنا اور ایک سویلین کوریڈور بنانا۔
دوم غزہ تک امداد پہنچانا جس میں خوراک ، ادویات اور دیگر امدادی سامان شامل ہے جس کی کل مقدار 250 ٹن بتائی جاتی ہے۔
اس قافلے میں 400 سے لیکر 500 تک افراد موجود ہیں۔ اس میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔ ان میں انسانی حقوق کے علمبردار، ڈاکٹرز، وکلاء، میڈیا کے لوگ، اور مذہبی شخصیات بھی شامل ہیں۔
گلوبل صمود فلوٹیلا غزہ کے نزدیک، اسرائیل کے عزائم کیا ہیں؟
اسرائیل کے سرکاری نشریاتی ادارے کی ایک خبر کے مطابق اسرائیلی فوج گلوبل صمود فلوٹیلا پر کریک ڈاؤن کرنے کا سوچ رہی ہے۔
اس میں جنگی جہازوں اور بحری کمانڈوز کے ذریعے قافلے پر قابو پانے کی سوچ زیر غور ہے۔ چند عسکری حکام اس بات کی دھمکی بھی دے رہے ہیں کہ تمام 50 جہازوں کو بندر گاہ تک لانے کی بجائے بعض کو سمندر میں ڈبو دیا جائے۔
اسرائیلی حکام کے سامنے یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ بحری جہاز پر موجود افراد کو حراست میں لے کر تفتیش کرنے کے بعد اشدود بندرگاہ سے ملک بدر کر دیا جائے۔
اس سے قبل اسرائیل کے قومی سلامتی کے وزیر ایتام بن گویر نے منصوبہ پیش کیا تھا کہ گلوبل صمود فلوٹیلا کے شرکاء کو قید کر کے ان کے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک کیا جائے۔
انسانی ہمدردی پر مشتمل اس وفد کو دہشت گردی سے تعبیر کرنے پر انہیں فلوٹیلا کے شرکاء سمیت بین الاقوامی سطح پر بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یہ سفر خطرات سے خالی نہ تھا۔ کئی مواقعوں پر اس بحری قافلے کو ڈرون اٹیک کا سامنا کرنا پڑا۔
صمود فلوٹیلا قافلے پر حملے:
اس میں سب سے بڑا حملہ 23 اور 24 ستمبر کی درمیانی شب دیکھنے کو ملا جب ڈروان حملے سے قافلے کی کئی کشتیوں کا نقصان پہنچا۔ تاہم کوئی جانی نقصان رپورٹ نہ ہوا۔
شرکاء پر حملے کے ساتھ اسرائیل کی جانب سے ٹیکنالوجی کے ذریعے بھی شرکاء پر حملے کئے۔
گلوبل صمود فلوٹیلا میں پاکستان سے شریک سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں بتایا کہ غزہ نے ان کا موبائل بلاک کر دیا ہے۔
میرا فون ہیک کرنے کے بعد مکمل جام کر دیا گیا ہے۔ جیسے جیسے ہم غ ز ہ سے قریب ہو رہے ہیں، اسرائیل اپنے دہشتگردی کے حربے ایک کے بعد ایک آزما رہا ہے۔ لیکن ہم ہر صورت غ ز ہ جائیں گے ان شاءاللہ۔
میری قوم سے اپیل ہے کہ پارلیمنٹ کے باہر، چوکوں چوراہوں میں، تعلیمی اداروں، مارکیٹوں اور… pic.twitter.com/tViDjbrzRo— Senator Mushtaq Ahmad Khan | سینیٹر مشتاق احمد خان (@SenatorMushtaq) September 30, 2025
انہوں نے ویڈیو ریکارڈنگ کے دوران ہی اپنا فون سمندر برد کرتے ہوئے بیان دیا کہ اسرائیل ان کا موبائل بند کرسکتا ہے، غزہ کی طرف ان کا سفر نہیں۔
انہوں نے عزم کا اظہار کیا کہ وہ غزہ کی طرف اپنا سفر جاری رکھیں گے۔
پاکستان سے صمود فلوٹیلا میں کون کون شامل ہے؟
گلوبل صمود فلوٹیلا میں 44 ممالک کے شہری شامل ہیں۔ اس میں کئی نامور شخصیات بھی ہیں جن میں سویڈن سے تعلق رکھنے والی ماحولیاتی ایکٹویسٹ گریٹا تھنبرگ، آئرش اداکار لیام کانینگهام اور نیلسن منڈیلا کے پوتے منڈلا منڈیلا سمیت کئی اہم شخصیات اس وفد کا حصہ ہیں۔
پاکستان سے بات کر لی جائے تو جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد جانا پہچانا نام ہیں جو اس قافلے کا حصہ ہیں۔ وہ وقتاً فوقتاً اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے اس قافلے کی اپڈیٹ دیتے رہے۔
اس کے علاوہ پاکستان سے جانے والی مزید شخصیات میں مشہور ایکٹویسٹ ڈاکٹر اسامہ ریاض ہیں جو کہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں اور شعبِ ابی طالب فاؤنڈیشن کے سی ای او بھی ہیں۔
اسماعیل خان ایک فلسطین حامی ایکٹویسٹ ہیں اور وہ پاکستانی یوتھ میں ایک مؤثر آواز کے طور پر جانے جاتے ہیں ۔ وہ بھی اس وفد کا حصہ ہیں۔
اس کے علاوہ مشہور نوجوان سکالر اور Mend Your Hearts فاؤنڈیشن کے سی ای او سید عزیز نظامی بھی گلوبل فلوٹیلا میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے ہیں۔