ملک بھر میں عام انتخابات ملتوی ہونے کی ڈھکی چھپی خبروں کے بعد اب پہلی بڑی پیش رفت سامنے آئی ہے جس میں سینیٹ نے الیکشن ملتوی کرنے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کر لی۔قرارداد سینیٹر دلاور خان نے پیش کی جو آزاد حیثیت رکھتے ہیں لیکن وہ ن لیگ سے حمایت یافتہ ہیں۔ قرارداد کے پیش کرتے وقت سینیٹ میں صرف 14 اراکین موجود تھے۔
ن لیگ سےسینیٹر افنان اللہ خان اور نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے قرارداد کی شدید مخالفت کی۔ پی پی کے سینیٹربہرہ مند تنگی ناور پی ٹی آئی رہنما گردیب سنگھ نے قرارداد پر خاموشی اختیار کی . جبکہ دوسری بار قرارداد پیش کرنے پر پی ٹی آئی سینیٹر گردیب سنگھ نے قرارداد کی مخالفت کی.
قرارداد میں کہا گیا کہ اکثر علاقوں میں موسم سخت سرد ہے جس کی وجہ سے انتخابی عمل متاثرہو سکتا ہے۔ قرارداد میں جے یو آئی ف کی رہنماؤں اور محسن داوڑ پر حملے کا حوالہ دے کر کہا گیا کہ الیکشن ریلی کے دوران ایجنسیوں کی طرف سے تھریٹ بھی ہیں۔
قرار داد پر رد عمل دیتے ہوئے سینیئر صحافی کامران خان نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھا کہ سینٹ آف پاکستان زندہ باد پاکستان کو فروری 8 کی افراتفری ایک اور دھاندلی زدہ الیکشن سے بچاؤ معاشی استحکام کے تسلسل SIFC کے تسلسل اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بہتری کے تسلسل کا صرف یہ ایک راستہ ہے۔ پہلے اندرونی اتحاد پیدا کریں صاف شفاف الیکشن کا ماحول بنے پھر ہوجائیں گے الیکشن ابھی صرف معیشیت بحالی مشن جاری رکھیں پاکستان زندہ باد۔
مزید پڑھیں: ن لیگ پنجاب کے امیدوار کیوںفائنل نہیںکر پا رہی؟
سینیئر صحافی شاہزیب خانزادہ نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اس قرار داد کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن ملتوی کرانے کی قرارداد دراصل کسی کی خواہش اور سازش ہے جس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔
سینئر صحافی حامد میر نے انکشاف کیا کہ وہ قرارداد پیش ہونے سے پہلے پارلیمنٹ میں موجود تھے اور قرارداد منظور کرنے والے تمام ممبران چیئرمین کے کمرے میں موجود تھے۔ انہیں کچھ معلوم نہیں تھا کہ اس قسم کی کوئی قرار داد آنے والی ہے۔
سینیٹ سے قرارداد منظور ہونے کے بعد کوئی اور پیشرفت سامنے آتی ہے تو اس پر سپریم کورٹ کا رد عمل دیکھنا ہوگا کیونکہ سپریم کورٹ اس حوالے سے سخت ریمارکس دے چکی ہے۔ سپریم کورٹنے راتوںکی سماعت اور الیکشن کمیشن کے خلاف آنے والے نچلی عدالتوںکے فیصلے اڑ ا کر پیغام دیا کہ انتخابات کی راہ میںکوئی رکاوٹبرداشت نہیںکی جائے گی۔
عمران خان بھی دی اکانومسٹ میں لکھے گئے اپنے آرٹیکل میں اس خدشے کا اظہار کر چکے ہیں کہ انکو انتخابات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔