قومی کرکٹ ٹیم کو شکست پر کیا سزا ملنی چاہیے؟ بڑے کھلاڑی کا مشورہ

پارٹ ٹائم چیئرمین پی سی بی محسن نقوی صاحب کا خیال ہے کہ پاکستانی ٹیم کی اب بڑی سرجری ہونی چاہیے۔ یہ خیال تو بہت نیک ہے لیکن اس سے قبل سمجھنا ہو گا کہ نقوی صاحب کی نزدیک بڑی سرجری سے کیا مراد ہے؟
کیا وہ پی سی بی میں بانٹے گئے عہدوں پر نظرثانی بھی کریں گے یا صرف قومی کرکٹ ٹیم کے آپسی اختلافات پر ایکشن لے کر یا کوچ سلیکٹرز وغیرہ تبدیل کرنے کو چیئرمین پی سی بی بڑی سرجری قرار دیں گے۔
ٹیم کی سرجری کرنے کیلئے ایسے سٹارز کرکٹرز کی رائے پر عمل کرنا چاہیے جنہوں نے قومی ٹیم کیلئے بے داغ کیریئر کھیلا ہو۔ یہی نہیں یہ بھی دیکھا جائے کہ مذکورہ شخصیت اپنے قریبی دوستوں کے حکومتی عہدوں پر ہونے کے باوجود بھی پی سی بی میں عہدوں کی دوڑ دھوپ نہ کی ہو۔
یہاں اگر سٹار کرکٹر وسیم اکرم کی تجویز کی بات کر لی جائے تو مناسب ہوگا۔ سابق کپتان وسیم اکرم نے نجی ٹیلی ویژن شو میں انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ جب بھی ٹیم ہارتی اس کے لگتا ہے کہ اب کوچ تبدیل کر دیا جائے گا اور ان پر کوئی آنچ نہیں آئے گی۔
وسیم اکرم نے مشورہ دیا ہے کہ اب کی بار پوری ٹیم کو تبدیل کیا جائے اور کوچز کو برقرار رکھا جائے۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی ٹی ٹونٹی ورلڈکپ 2026 میں شرکت کیوں خطرےمیں ہے؟
وسیم اکرم کی اس تجویز پر سب سے پہلے تو محمد عامر اور عماد وسیم کے استعفیٰ قبول کیئے جائیں جن کے بارے میڈیا پر خبریں زیر گردش ہی کے ورلڈکپ ختم ہوتے ہی دونوں کھلاڑی اپنی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔
ورلڈکپ سے قبل ریٹائرمنٹ لے کر جانے والے ان دونوں کھلاڑیوں کو منت سماجت کر کے دوبارہ ٹیم میں لانا سمجھ سے بالاتر بات دکھائی دیتی ہے۔
اس کے بعد ان تمام کھلاڑیوں جن پر میرٹ کے برخلاف بھرتی اور ذاتی پسند نا پسند کا کھیل شامل ہے انہیں اسکواڈ سے ہٹا دیا جائے۔
یاد رہے کہ اگلے سال پاکستان چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی بھی کرے گا۔ ایسے وقت میں کیا اچھا لگے گا کہ میزبان ٹیم پہلے ہی راؤنڈ سے باہر ہو جائے اور پھر مہمانوں کے میچ کے انتظامات سنبھالتی پھرے؟
اس مایوس کن کارکردگی کے بعد اور چیمپئنزٹرافی سے قبل قومی ٹیم اور کرکٹ بورڈ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جانے چاہیں۔
اگر ایسا ممکن نہیں ہو سکتا تو وسیم اکرم کی مشورے کی بجائے پاکستانی قوم کے مشورے کو فوقیت دیتے ہوئے اس کھیل پر انرجی اور پیسہ برباد کرنے کی بجائے کوئی اورکام کر لیا جائے۔
2 Comments