ڈرون حملے پاکستانی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں جنہوں نے سینکڑوں بے گناہ لوگوں کی جان لی ،ہزاروں افراد زخمی ہوئے اور ان میں سے کئی آج بھی معذوری کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کی سزا میں پاکستان کو ان ڈرون حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ڈرون حملوں نے کئی علاقوں میں خاندانوں کے خاندان اجاڑ دیئے۔
ایسا ہی ایک خاندان صوبہ خیبر پختونخوا کے علاقے جنوبی وزیرستان کے رہائشی عبدالقادر کا بھی ہے جنہوں نے اپنے والد اور بھائی سمیت خاندان کے 19 افراد کو ڈرون حملے کی نظر ہوتے دیکھا۔
اس وقت عبدالقادر کی عمر صرف نو سال تھی۔ عبدالقادر کے والد انہیں ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے۔ خاندان کے 19 افراد ڈرون حملوں کی نظر ہونے کے بعد عبدالقادر نے اس کا بدلہ لینے کا انوکھا طریقہ ڈنڈا اور انہوں نے تعلیمی انقلاب کے لیے اپنی کوششیں شروع کر دیں۔
اس میں پہلی کوشش اپنے والد کی نصیحت کو عملی جامہ پہنانا تھا اور اس کے لیے عبدالقادر کو ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرنا تھی۔اس خواب کو پورا کرنے کے لیے عبدالقادر نے گجو خان میڈیکل کالج صوابی میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے داخلہ لیا ۔ اس وقت وہ تھرڈ ایئر کے طالب علم ہیں۔
مزید پڑھیں:پاکستان کی سب سے بڑی یونیورسٹی میں زیر زمین پانی ختم ہو گیا
دوسری اہم کوشش جس کو انہوں نے تعلیمی انقلاب کا نام دیا ہے اس کے تحت عبدالقادر خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں جا کر تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کر رہے ہیں ۔وہ وہاں جا کر اپنی کہانی سناتے ہیں کہ کس مشکل حالات کے باوجود وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اس کے علاوہ وہ گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے گاؤں میں جا کر سکولوں میں مفت پڑھاتے ہیں۔
عبدالقادر اپنے خاندان کی موت کا بدلہ تعلیمی انقلاب سے لینا چاہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے انہیں پیسوں کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ اگر کوئی اس عمل میں ان کا ہاتھ بٹانا چاہتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ سکول یا لائبریری بنا کر دے تاکہ انے والی نسلوں کا فائدہ ہو۔