دنیا

کیا حسینہ واجد کے بعد پاک بنگلہ دیش تعلقات میں بہتری ہو گی

یوں تو 1971 میں علیحدگی کے بعد سے پاک بنگلہ دیش تعلقات ہمیشہ ناخوشگوار ہی رہے ہیں لیکن شیخ حسینہ واجد کے دور حکومت کے گزشتہ 15 سال اس حوالے سے بدترین رہے ہیں۔حسینہ واجد بھارت کے زیادہ قریب تصور کی جاتی تھیں اور اسکا فائدہ اب وہ جلا وطنی کےبعد وہاں پناہ لے کر وصول بھی کر رہی ہیں۔ لیکن پاکستان سے تعلقات میں انہوں نے سرد مہری روا رکھی۔
اس حوالے سے بنگلہ دیش میں پاکستانی سفیر رہنے والے رفیع الزمان صدیقی کہتے ہیں کہ شیخ حسینہ کے دور حکومت میں عملی طور پر دونوں ممالک میں تعلقات ہی منقطع ہو گئے تھے۔
اب جبکہ نوبل انعام یافتہ محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت تشکیل دی جا چکی ہے ، پاکستان پر امید ہے کہ آنے والے دور میں پاک بنگلہ دیش تعلقات میں بہتری دیکھنے کو ملے گی۔
یوں ایک ایسے وقت میں جب بنگلہ دیش میں عبوری حکومت قائم ہو چکی ہے، بنگلہ دیش کو تمام قریبی ممالک کو اپنی عبوری حکومت کے حوالے سے اعتماد میں لینا ہے کیونکہ بنگلہ دیش میں قائم اس عبوری حکومت کا دورانیہ کتنا ہے، اس بارے ابھی کچھ نہیں کہاجاسکتا۔

مزید پڑھیں:‌بنگلہ دیش کی وزیر اعظم اب بھی شیخ حسینہ واجد

ایسے وقت میں کسی بھی ملک پر عالمی سطح پر پریشر ہوتا ہے کہ وہ اقتدار منتخب حکومت کے حوالے کرے۔ اور یوں اس ملک کو طاقتور اتحادی چاہیے ہوتے ہیں جو عالمی سطح پر اس کے پریشر کو کم کرنے میں مدد دیں۔
حسینہ واجد کی حکومت کو بھارت نواز حکومت کہا جاتا ہے۔ لیکن اب چونکہ حسینہ واجد کی حکومت نہیں رہی تو ممکنہ طور پر بھارت کے بنگلہ دیش سے ویسے تعلقات نہیں رہیں گے۔
کیا پاکستان خطے میں طاقت کے اس خلاء کو پر کرنے کیلئے اپنی خدمات کا اظہار کرے گا اور خود ہی بنگلہ دیش حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے گا ؟
خارجہ امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ حسینہ حکومت کے جانب سے امید کی فضاء پیدا ہوئی ہے اور وہ اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاک بنگلہ دیش تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button