
پاکستان تحریک انصاف کے وکیل رہنما سینیٹر علی ظفر عمران خان کو دغا دے گئے۔ وہ 63 اے نظرثانی کیس میں سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی نمائندگی کر رہے تھے۔گزشتہ روز انہوں نے اس حوالے سے عدالت میں درخواست دائر کی کہ ان کی عمران خان سے ملاقات کرائی جائے جس کے بعد عدالت نے یہ حکم نامہ جاری کیا۔
آج سماعت شروع ہوئی تو عمران خان کے وکل بیرسٹر علی ظفر نے عمران خان کا پیغام قاضی فائز عیسیٰ کو سنایا جس میں ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی ہدایت ہے کہ اس بینچ کی تشکیل درست نہیں ہے، لہذا اس بینچ کے سامنے کارروائی جاری نہیں رکھ سکتے۔
علی ظفر نے ایک موقع پر عمران خان کی جانب سے ویڈیو لنک کے ذریعے مقدمے میں پیشی کی درخواست بھی کی گئی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔
تحریک انصاف کے وکیل رہنما نے ایک موقع پر سخت دلائل بھی دیئے جس پر انہیں توہین عدالت کی کارروائی کی وارننگ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
بیرسٹر علی ظفر کاکہنا تھا کہ حکومت آپ کیلئے آئینی ترمیم اور جوڈیشل پیکچ لارہی ہے،اگر آپ نے فیصلہ دیا تو یہ ہارس ٹریڈنگ کی اجازت ہوگی۔
اس پر چیف جسٹس نے تحریک انصاف کے وکیل رہنما کو وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اب آپ حد کراس کر رہے ہیں،ہم آپکو توہین عدالت کا نوٹس کر سکتے ہیں،آپ فیصلے سے پہلے توہین آمیز باتیں کر رہے ہیں۔
مزیدپڑھیں:حکومت کیلئے آئینی ترامیم کا راستہ ہموار، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
بعد ازاں تحریک انصاف کے وکیل نے عدالتی سماعت کا بائیکاٹ کر دیا۔ لیکن بائیکاٹ کرتے ہی انہیں چیف جسٹس کی جانب سے عدالتی معاون بننے کی آفر کی گئی جسے انہوں نے ہنسی خوشی قبول کر لیا۔
کورٹ رپورٹر زبیر علی خان کا کہنا تھا کہ علی ظفر نے جب بطور عمران خان کے مؤکل کے بائیکاٹ کر دیا تو ان کا بطور معاون اس بینچ کے سامنے دلائل دینا عمران خان کے موقف کے خلاف کھڑے ہونے کے مترادف ہے، اس سے یہ ثابت ہوتا کہ علی ظفر اس بنچ پر اعتماد کر رہے ہیں اور کینگرو کورٹ کو عین آئینی تصور کرتے ہوئے اس کے سامنے پیش ہورہے ہیں۔ یہ معاملہ عمران خان یا کسی جماعت کا نہیں اس پر وکلا کو بھی سٹینڈ لینا ہوگا۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے 63 اے کیس میںنظرثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے مختصر فیصلہ سنا دیا ہے۔