چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے کہ میں سول نافرمانی کی تحریک چند دنوں کے لیے مؤخر کر رہا ہوں، اس دوران تحریک کے خدوخال اور ٹائم لائن کا فیصلہ کروں گا-
عمران خان نے مزید کہا کہ سات ایسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ہمارےلیے سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنا ضروری ہو چکا ہے:
۱۔ 2023 میں لندن پلان کے تحت پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے الیکشن آئین کے برخلاف 90 دن کے اندر نہیں کرائے گئے۔ کیونکہ الیکشن سے پہلے تحریک انصاف کو ختم کرنا مقصد تھا۔
۲- نو مئی سے پہلے ہی مجھ پر ایک سو چالیس سے ذائد مقدمات بنا دئیے گئے تھے۔ رینجرز نے مجھے اسلام آباد سے اغواء کیا جس کو سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا۔ نو مئی ایک فالس فلیگ آپریشن تھا جس کے تحت ہمارے لوگوں کو گرفتار کرنا مقصد تھا۔ دس ہزار افراد کو گرفتار کر کے جھوٹے مقدمات میں جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ ہمارے کارکنان اور پارٹی رہنماؤں پہ تشدد کیا گیا ان کے گھروں کو توڑا گیا۔ ان کے خاندانوں کو ہراساں کیا گیا۔ ان کو عدالتوں سے ضمانت ملتے ہی کسی نئے جھوٹے پرچے میں گرفتار کر لیا جاتا۔ میرے اغوا سے لے کر کارکنان پہ تشدد، گرفتاریاں سب کچھ غیر قانونی اور غیر آئینی تھا۔
اس ظلم کے خلاف سپریم کورٹ میں پیٹیشن دائر کی لیکن سپریم کورٹ نے انسانی حقوق کی ان بدترین خلاف ورزیوں کا نوٹس تک نہ لیا۔ قاضی فائز عیسیٰ حکومت کے ساتھ ملا ہوا تھا۔ 1971 کے بعد کبھی کسی پارٹی پر اس طرح کا ریاستی جبر نہیں کیا گیا۔
۳- تمام غیر قانونی و غیر جمہوری حربوں کے بعد ان کو غلط فہمی تھی کہ 8 فروری کو تحریک انصاف الیکشنز نہیں جیت سکتی۔ سکندر سلطان راجہ اور قاضی فائز عیسیٰ نے مل کے پارٹی نشان چھینا جو پارٹی کو بین کرنے کے مترادف تھا۔ ہمارے امیدواروں کو نشانہ بنایا گیا۔ تین تین امیدواروں کو زبردستی الیکشن سے دستبردار کرایا گیا۔
۴-ان کو انجینئرنگ کے ذریعے الیکشن جیتنے کا اس قدر یقین تھا کہ نواز شریف اپنی وکٹری سپیچ بھی کرنے کو تیار تھا لیکن تقریر سے پہلے ان کو پتہ چلا کہ تحریکِ انصاف الیکشن جیت گئی ہے۔ پھر انہوں نے فارم-47 کے زریعے الیکشن فراڈ کیا۔ کمشنر راولپنڈی نے اس فراڈ کو کنفرم کیا اور گواہی دی۔ لیکن اس پر بھی نظام انصاف خاموش رہا اور کوئی نوٹس نہ لیا گیا۔
۵۔ اس رجیم چینج کے بعد کے ڈھائی سالوں میں یوں تو انصاف کے نظام پر قبضے کے لیے ہر جابرانہ اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کیا گیا لیکن چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے عدالتوں کی آزادی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا گیا۔ اپنی مرضی کے جج لگانے کے لیے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا گیا۔ اس ترمیم کی منظوری کے لیے جو حربے استعمال کئے گئے وہ بھی ایک مضحکہ خیز داستان ہے، لیکن اس سارے معاملے پر بھی نہ عدلیہ نے کوئی نوٹس لیا نہ ریاست کا چوتھا ستون سمجھے جانے والے میڈیا میں اس کےخلاف آواز بلندکرنے کی اخلاقی جرات تھی۔
۶-سپریم کورٹ کے فل کورٹ کے فیصلے کے باوجود تحریکِ انصاف کو آج تک مخصوص نشستیں نہیں دی گئیں۔ یہ نہ صرف توہین عدالت ہے بلکہ عوامی فیصلے کی توہین اور جمہوریت پر شب خون بھی ہے۔
۷۔ 26 نومبر کو ہمارے پرامن اور نہتے سیاسی کارکنان پہ گولیاں برسائی گئیں۔ ہمارے کارکنان مکمل طور پہ پر امن تھے انہوں نے کسی کو نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ ان کا مطالبہ آئین اور جمہوریت کی بحالی تھا- نہ تو لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال تھی نہ ہی کوئی اور پر تشدد کاروائی ہوئی لیکن اسکے باوجود ہمارے لوگ شہید کئے گئے۔ 12 لوگ مغرب سے پہلے شہید کئے گئے اور باقیوں کو رات بجلی بند کر کے گولیاں ماری گئیں۔
مزید پڑھیں:ڈی چوک احتجاج میں گولی چلانے کا معاملہ، پٹیشن پراعتراضات برقرار
ان حالات میں جب پاکستانیوں سے تمام آئینی حقوق چھین لیے گئے ہیں، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ پر قبضہ کر لیا گیا ہے، پرامن احتجاج کا حق چھین لیا گیا ہے، قانون اور آئین کی بنیادیں ہلا دی گئی ہیں، اپنے ہی شہریوں پر گولیاں چلائی جا رہی ہیں، اداروں کو عوام کے مقابلے میں لانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں تو سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنا قوم کی مجبوری بن چکی ہے-
اس کے علاوہ اپوزیشن لیڈران کو جیل میں ملاقات کے لئے ویلکم کرتا ہوں۔ پر مجھے اس حکومت سے امید نہیں ہے کہ وہ اپوزیشن لیڈران کو مجھ سے ملاقات کی اجازت دیں گے۔ کیونکہ انہوں نے میری پارٹی کے لوگوں سے بھی تین مہینے سے میری ملاقات نہیں کروائی-“