
چند روز قبل ہی اسلام آباد ہائیکورٹ کے میں دو ایڈیشنل ججز جسٹس راجہ انعام امین منہاس اور جسٹس محمد اعظم خان نے حلف اٹھایا تھا جس کے بعد یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ عمران خان کے کیسز سمیت دیگر ہائی پروفائل کیسز اب ان ججز کے سامنے مختص کئے جائیں گے۔
ایڈیشنل ججز کے سامنے کیس مقرر کرنے سے پی ٹی آئی حلقوں کے جانب سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں عمران خان کے کیسز کے لئے نئے ججز بھرتی کئے جارہے ہیں تا کہ عمران خان کو ہائی کورٹ میں ضمانت حاصل کرنے میں دشواری ہو۔
القادر ٹرسٹ کیس کا فیصلہ سنائے جانے میں تاخیر کو بھی نئے ججز کی تقرری سے جوڑا جارہا تھا اور پی ٹی آئی دعویٰ کر رہی تھی کہ ایسا اس لئے کیا جارہا ہے کہ نئے ججز کی تقرری کے بعد عمران خان کو سزا سنائی جائے تا کہ جب وہ اپیل دائر کریں تو اسلام آباد ہائیکورٹ میں ان کے خلاف فیصلہ آئے۔
عمران خان کیلئے اسلام آباد ہائیکورٹ سے نئی خبر:
اب تک کی تازہ ترین اپڈیٹ کے مطابق عمران خان کا کیس ایڈیشنل ججز کے سپرد کر دیا گیا ہے۔صحافی ثاقب بشیر کے مطابق توشہ خانہ ٹو کیس میں عمران خان اور بشری بی بی کی بریت کی درخواستیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے ایڈیشنل جج جسٹس انعام امین منہاس کے سامنے کل کے لئے مقرر کر دیں۔ گزشتہ ہفتے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اعتراضات دور کرکے مقرر کرنے کی ہدایت کی پھر بنچ تبدیل ہو گیا۔
مزید پڑھیں:190 ملین پاؤنڈ نظر ثانی کیس اسلام آباد ہائیکورٹ کو نسا بینچ سنے گا؟
ماضی میں نئے ججز کو ہائی پروفائل کیسز کب دیئے جاتے ؟
صحافی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ پچھلے پانچ چھ سال میں میری کورٹ رپورٹنگ کے دوران اسلام آباد ہائیکورٹ میں تین دفعہ مختلف نئے ججز کھیپ ہائی کورٹ میں آئی چھ چھ آٹھ آٹھ ماہ ان ججز کے کورٹ میں نہیں جا پاتے تھے کیونکہ وہاں ہائی پروفائل کیسز نہیں لگتے تھے ۔ہائی پروفائل کیسز نا لگنے کی وجہ یہ ہوتی تھی بطور جج نئے ہوتے ہیں ہاتھ بیٹھاتے بیٹھاتے وقت لگ جاتا ہے کیونکہ یہاں ایک دن وکیل دوسرے دن وہ جج کی کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں درمیان میں ہلکی پھلکی تکنیکی ٹریننگ کا بھی کوئی تصور نہیں ہے ۔ لیکن یہاں تو چوتھے دن ہی ہائی پروفائل کیس لگ گیا۔
کورٹ رپورٹر احتشام کیانی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چند سال پہلے تعینات ہونے والے تین ایڈیشنل ججز ڈیڑھ سال تک جج رہنے کے بعد بھی معیار پر پورا نہ اُترنے کی وجہ سے مستقل نہ ہو سکے تھے. یہی وجہ ہے کہ ایڈیشنل ججز کو اہمیت کے حامل مقدمات نہیں دیے جاتے تھے. اب تو چوتھے دن ہی ایک ایڈیشنل جج کو ہائی پروفائل کیس دینے کا رواج شروع ہو گیا ہے۔