اہم خبریںنئی نسل

سال 2023 بچوں کیلئے خوفناک کیوں تھا؟

پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی و دیگر جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جو کہ حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستان میں بچوں کے ساتھ جنسی و دیگر جرائم میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے جو کہ حالات کی سنگینی کو ظاہر کرتا ہے۔

دوسری جانب حکومتیں صرف چائلڈ پروٹیکشن  کے نام سے ادارے بنا کر اور اسمبلیوں میں بل اور قراردادیں پاس کر کے مطمئن دکھائی دیتی ہیں۔

یہی وجہ ہے  کہ حکومتوں کے ذمے فرض یہ کام اپنے ذمے لینے کیلئے کئی این جی اوز معرضِ وجود میں آتی ہیں۔

لیکن یہ این جی اوز چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر پاتیں کیوں کہ جو کام ریاست اپنی رٹ سے کرا سکتی ہے ، وہ کوئی این جی او نہیں کراسکتی۔

رواں سال 2023 میں بھی پاکستان بچوں کیلئے خوفناک ملک رہا جہاں صرف رپورٹ ہونے والے کیسز پر ہی اکتفاء کر لیا جائے تو عقل دنگ رہ جائے گی۔

 

سال 2023، پاکستان میں بچوں کیلئے خوفناک ترین سال:

 

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق نے این جی او ساحل کے تعاون سے ایک رپورٹ تیار کی ہے جسکی بنیاد پر سامنے آیا ہے کہ پاکستان میں سال 2023 میں روزانہ کی بنیاد پر اوسطاً 11 بجوں کا استحصال کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق سال 2023 میں چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت ملک بھر میں بچوں کے استحصال کے 4200 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے۔ یوں سال 2023 بچوں کیلئے خوفناک سال تھا۔

رپورٹ کے مطابق ان کیسز میں جنسی استحصال، اغواء، لاپتہ ، اور بچوں کی شادیوں کے کیسز شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دونوں جنس کے بچے تقریباً ایک ہی شرح سے اس استحصال کا نشانہ بنے۔ تاہم لڑکیوں میں شرح نسبتاً زیادہ تھی۔ 53 فیصد لڑکیاں اور 47 فیصد لڑکے زیادتی کا نشانہ بنے۔

بچوں کے حوالے سے تشویشناک اعداد و شمار میں یہ بھی پتا چلا ہے کہ صفر سے پانچ سال تک کی بچے بھی اس ظالمانہ جرم کی نظر ہوئے۔

سال 2023 کی اس رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ کنبے کے افراد اور رشتہ داروں بذات خود یا بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کیلئے سہولت کار کا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ یوں سال 2023 بچوں کیلئے خوفناک سال ثابت ہوا۔

مزید پڑھیں: مراد سعید کو پھانسی کی سزا؟

جغرافیائی اعداد و شمار نے سب سے بڑے صوبے میں قانون نافذکرنے والے اداروں کی کارکردگی پر سنجیدہ سوالات اٹھا دیئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق رپورٹ ہونے والے کیسز میں 75 فیصد کیسز صوبہ پنجاب سے ہیں جبکہ 13 فیصد سندھ اور 7 فیصد کیسز اسلام آباد سے رپورٹ ہوئے۔

اگر توجہ دی جائے تو وفاقی دارلحکومت میں 7 فیصد کا ہندسہ بہت بھاری معلوم ہوتا ہے۔

قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کی چیئرمین کا کہنا ہے کہ ساحل کی جانب سے مرتب کی گئی یہ رپورٹ اگرچہ تشویشناک ہے لیکن یہ حقیقت ہے جسے ہمیں تسلیم کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کیسز کے مقابلے میں حکومت کے پاس کوئی نیشنل ایکشن پلان ہی نہیں ہے۔

جہاں اس رپورٹ نے سال 2023 بچوں کیلئے خوفناک ہونے کی نشاندہی کی ہے وہیں اس کیلئے ٹھوس اقدامات نہ کرنے کی صورت میں اس نمبر کے مزید بڑھنے کی پیشن گوئی بھی کی ہے۔

 

کیا یہ حقیقی اعداد و شمار ہیں؟

 

بچوں کے ساتھ ہونے والے جرائم کی یہ اعداد و شمار مکمل طور پر درست نہیں ہوسکتے ۔ کیونکہ یہ اعداد و شمار صرف رپورٹ ہونے والے کیسز کے ہیں۔

اس کے برعکس کچھ والدین بدنامی کے ڈر سے معاملہ دبا دیتے ہیں جبکہ بعض حالات میں بچے والدین کے ساتھ ہی بات شیئر نہیں کر پاتے۔

تاہم پاکستان میں اس حوالے سے شعور میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ اچھے مستقبل کی نوید ہے۔

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے بچوں کی ان حساس معاملات پر تربیت کریں تا کہ کل کو کوئی ننھا پھول اس لئے نہ مرجھا جائے کہ کسی ظالم نے اس سے بچپن کی ہنسی چھیننے کی کوشش کی اور اس کے ساتھ کوئی نہ تھا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button