بنگلہ دیش عبوری حکومت بھی پاکستان کی نگران حکومت کے نقش قدم پر چل پڑی ۔بنگلہ دیش کی عبوری حکومت آرڈیننس کے تحت کام جاری رکھے گی، جسے نئے پارلیمان کے قیام تک کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
ڈھاکہ سے موصول اطلاعات کے مطابق یہ آرڈیننس حکومتی مشاورتی کونسل نے منظور کر لیا ہے اور اس ہفتے کے اوائل میں کسی بھی وقت نافذ کیا جا سکتا ہے۔ یہ اقدام بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی (بی این پی) کی جانب سے انتخابات کے شیڈول کے لیے ہونے والے حالیہ مظاہروں کے پیش نظر کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز آرمی چیف کی چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس سے ایک اہم ملاقات ہوئی، جبکہ اتوار کو تین نئے ایڈوائزرز کو مشاورتی کونسل میں شامل کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق، آرڈیننس کے مسودے میں کہا گیا ہے کہ عبوری حکومت کی تشکیل، چیف ایڈوائزر یا کسی دوسرے ایڈوائزر کی تقرری میں کوئی کمی بیشی ان کے کسی عمل کو صرف اسی بنیاد پر غیر قانونی قرار نہیں دے گی۔ اس حوالے سے کسی بھی عدالت میں سوالات نہیں اٹھائے جا سکتے اور نہ ہی کوئی قانونی مقدمہ دائر کیا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں:ٹرمپ کی جیت میں بنگلہ دیش کے ڈاکٹر محمد یونس کی عبوری حکومت کیلئے پیغام
ان شقوں کے ساتھ عبوری حکومت کے آرڈیننس کا مسودہ حتمی شکل دی گئی ہے۔ اگرچہ مشاورتی کونسل کے اجلاس میں ستمبر کے تیسرے ہفتے میں مسودے کی منظوری دی گئی تھی، لیکن ابھی تک اسے آرڈیننس کے طور پر جاری نہیں کیا گیا۔ اب یہ اجرا کا منتظر ہے۔
ایک طالبعلم کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے بعد، شیخ حسینہ کی عوامی لیگ حکومت 5 اگست کو اقتدار سے ہٹا دی گئی اور حسینہ بھارت فرار ہو گئیں۔ اگلے دن صدر نے 12ویں قومی پارلیمان کو تحلیل کر دیا۔ 8 اگست کو، اپیلٹ ڈویژن سے مشورے کے بعد معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر محمد یونس کو چیف ایڈوائزر مقرر کیا گیا اور عبوری حکومت تشکیل دی گئی۔