بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل کی قومی شاہراہ پر عسکریت پسندوں نے ٹرکوں اور مسافر بسوں سے اتار کر شناخت کرنے کے بعد 23 افراد کو قتل کر دیا۔ جرم صرف پنجابی ہونا ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق شاہراہ پر علیحدگی پسند گروہ کے عسکریت پسندوں نے ناکہ لگا رکھا تھا جہاں مسافر بسوں سے لوگوں کو اتار کر شناختی کارڈ لئے گئے اور پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسافروں کو قتل کر دیا گیا۔
عام مسافروں کے ساتھ ٹرک ڈرائیوروں کو بھی اتار کر مارا گیا اور گاڑیوں بھی نذر آتش کیا۔
اس کے علاوہ صوبے کے مختلف علاقوں میں پولیس سٹیشن اور ریلوے لائن کو بھی دھماکہ سے اڑانے کا واقعہ پیش آیا جس کے بعد مجموعی طور پر ایک ہی دن میں صوبے سے 33 لاشیں اٹھ رہی ہیں۔
درجنوں افراد کی اموات پر حکومتی بے حسی کو لے کر بات کرتے ہوئے صحافی احمد وڑائچ کا کہنا تھا کہ فرسٹ ورلڈ چھوڑیں، چھوٹے چھوٹے ملکوں میں ایک دن میں 35 لوگ مارے جائیں تو قیامت ٹوٹ پڑے۔ ہم ایسے بدنصیب ہیں کہ اظہار مذمت، اظہار افسوس، اظہارِ تعزیت سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ اور سانحہ تو ہماری تاریخ میں ہوا ہی ایک ہے، اس کے علاوہ سب کیڑے مکوڑے ہیں، مرتے رہیں، اظہار تعزیت آتا رہے گا۔
مزید پڑھیں:نوشکی واقعہ کے عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟
واقعہ پر وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے علاقے موسی خیل میں رات کے اندھیرے میں بسوں سے اتار کر معصوم اور بے گناہ افراد کو شناختی کارڈ چیک کر کے شہید کرنے والے دہشت گردوں کا تعاقب جاری ہے، ان معصوم بے گناہ لوگوں کی شہادت میں ملوث افراد کے خلاف قانون اپنا راستہ لے گا۔ مظلوم شہداء کے گھر والوں سے تعزیت کرتا ہوں اور مرحومین کے درجات کی بلندی کے لئے دعا گو ہوں۔
جبکہ وزیر اعظم ہاؤس سے بھی واقعے پر مذمتی بیان جاری ہوتےہوئے ذمہ داروں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔
بلوچستان میں شہریوں کو پہچان کر کے پنجابی ہونے پر قتل کرنے کے واقعات میں بہت اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اپریل میں بھی قومی شاہراہ پر ایسا واقعہ دیکھنے کو ملا تھا جب نوشکی میں ایک مسافر بس سے 11 افراد کو نکال کر پنجابی ہونے پر قتل کر دیا گیا تھا۔