السلام علیکم ناظرین ، امید ہیں آپ خیر خیریت سے ہونگے۔ ننھے محمد شیراز کی یہ رس گھولتی آواز یقیناً آپ کو بھی بہت پسند ہوگی۔ گلگت بلتستان کے دورافتادہ گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد شیراز نے آج سے چند ماہ قبل جب سوشل میڈیا پر شہرت کی بلندیوں کو چھونا شروع کیا تو چند ہی دنوں میں انکے سبسکرائبرز لاکھوں میں پہنچ گئے۔
نہ صرف ٹیلی ویژن شو، شیراز کو وزیر اعظم ہاؤس تک مدعو کر لیا گیا۔ جہاں ننھے وی لاگر کی معصومانہ باتیں ہمارا دل موہ رہی تھیں وہیں والدین کی سی سوچ رکھنے والے لوگ اس بچے کو چھوٹی عمر میں شہرت ملنے پر پریشان سے دکھائی دیتے تھے۔
یہی پریشانی شیراز کے والد کی بھی تھی سو وہ آگے آئے اور دلیرانہ فیصلہ لیا۔ وقتی شہرت کو بچے کی معصومیت پر فوقیت دینےکی بجائے والد ہونے کا حق نبھاتے ہوئے بیٹے کو سوشل میڈیا کے اس چنگل سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا۔
شیراز اس دوڑ میں اکیلا نہیں ہے، ننھا احمد بھی آج سے چند سال پہلے مقبول ہوا اور ابھی تک وہ ایسے ہی میڈیا کی زینت بنا ہے۔
مزید پڑھیں:عائشہ عمر ننھے وی لاگر محمد شیراز کے والد کی معترف کیوں ہیں؟
بچپن کی شہرت کے حوالے سے چائلڈ ہڈ ڈویلپمنٹ ایکسپرٹ کا کہنا ہے کہ بچپن میں نشوونما اپنے اردگرد کے ماحول کو دیکھنے اور کھیلنے کودنے سے منسلک ہے۔ شہرت بچپن کا یہ حسن چھین لیتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بچے جب عوامی توجہ کا مرکز بن جاتے تو وہ اپنی زندگی کے کئی تجربات سے ہاتھ دھو بیٹھتے جو ان کی عمر کے باقی بچوں کومیسر آتے ہیں۔
ایک ماہر نفسیات نے اس حوالے سے کہنا تھا کہ چھوٹی عمر میں سوشل میڈیا کی شہرت بچوں میں اینگزائٹی کو فروغ دیتی ہے کیونکہ ان سے توقع کی جاتی ہے کہ اب وہ ہر آنے والی ویڈیو میں عوام کو ویسے ہی انٹرٹین کریں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ چھوٹی عمر کی شہرت بچوں کیلئے کسی طور فائدہ مند نہیں ہے اور کچھ بھی ہو جائے والدین پرذمہ داری عائد ہوتے ہیں کہ وہ بچپن کی معصومیت اور سوشل میڈیا کی شہرت کے درمیان واضح لکیر کھینچیں تا کہ وہ وقتی شہرت کےچکر میں بچوں کا مستقبل داؤ پر لگا بیٹھیں۔