بقا کی جنگ لڑتے ریڈیو میں نئی روح پھونکنے والا آسٹریلیا کا اے آئی پروگرام ہوسٹ
آسٹریلیا کا ایک ریڈیو سٹیشن اس وجہ سے تنقید کا شکار ہے کہ اس نے تقریباً چھ ماہ تک صارفین کو بغیر آگاہ کئے ایک اے آئی میزبان کے ذریعے ریڈیو شو منعقد کرایا۔

آسٹریلیا کا ایک ریڈیو سٹیشن اس وجہ سے تنقید کا شکار ہے کہ اس نے تقریباً چھ ماہ تک صارفین کو بغیر آگاہ کئے ایک اے آئی میزبان کے ذریعے ریڈیو شو منعقد کرایا۔
آسٹریلیا کا اے آئی ریڈیو ہوسٹ (AI Radio Host) :
آسٹریلین ریڈیو نیٹ ورک کے سی اے ڈی اے (CADA) سٹیشن نے الیون لیبز (Eleven Labs) کے تیار کردہ سافٹ ویئر کی مدد سے تھائی نامی ایک اے آئی ریڈیو ہوسٹ (AI Radio Host) کی تخلیق کی۔
اس کے بعد اس سٹیشن سے "ورک ڈیز ود تھائی” کے نام سے ایک شو سوموار سے جمعہ تک روزانہ 4 گھنٹے تک موسیقی پیش کرتا تھا لیکن ویب سائٹ پر شو کے معلومات دیتے ہوئے ریڈیو چینل کی جانب سے یہ واضح نہیں کیا گیا تھا کہ یہ آواز حقیقی ہے یا مصنوعی ذہانت پر مبنی ہے۔
ایسا چینل کی جانب سے ارداتاً کیا گیا تھا یا یہ عمل غیر ارادی تھا اس بارے ابھی کوئی رائے نہیں دی جاسکتی ۔ لیکن لوگوں لگاؤ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی ماہ تک تھائی نامی اے آئی ریڈیو ہوسٹ نے سامعین کو اپنی آواز کے حصار میں لئے رکھا۔
اس مصنوعی ذہانت پر مبنی ریڈیو میزبان کی اصل حقیقت اس وقت سامنے آئی جب سڈنی سے تعلق رکھنے والی ایک مصنفہ تھائی سے متعلق چند سوالات اٹھائے۔
سیفٹنی کومس نامی مصنفہ نے سوال اٹھایا کہ تھائی کہاں سے آئی ہیں ، ان کا پورا نام کیا ہے؟ کیا وہ حقیقی انسان ہیں؟ ان کی سوانح حیات کیا ہے؟
ٹیلی ویژن میں تو پھر بھی شو کے میزبان کی تصویر دکھائی دیتی ہے اور صارفین اس کی قابلیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
لیکن ریڈیو میں میزبان کی صرف آواز سنائی دیتی ہے ۔ اس لئے اس کی سوانح سامعین کیلئے بہت اہمیت رکھتی ہے کیونکہ وہ اسی بنیاد پر فیصلہ کرتے ہیں کہ وہ اس ریڈیو ہوسٹ کو سنیں یا نہ سنیں۔
یہی وجہ ہے کہ مس کومبس کی جانب سے جب یہ سوالات سامنے آئے تو چینل نے تسلیم کیا کہ یہ آواز مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کی گئی ہے اور تھائی حقیقت میں موجود نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل 2024 منظور، جانئے اس بل میںکیا ہے؟
حقیقت سامنے آنے کے بعد چینل کو تنقید کا سامنا ہے کہ اس نے لوگوں کو دھوکہ دیا ہے۔ اگرچہ آسٹریلیا میں براڈ کاسٹنگ کیلئے مصنوعی ذہانت کے استعمال پر پابندی نہیں ہے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ چینل کی جانب سے اسے واضح طور پر لیبل کرنا چاہیے تھا کہ یہ حقیقی نہیں اے آئی کی آواز ہے۔
کیا مصنوعی ذہانت سے ریڈیو میں نئی جان ڈالی جا سکے گی؟
جہاں اس بحث میں ریڈیو پر تنقید کی جارہی ہے وہیں کچھ صارفین اس کو مثبت نظر سے بھی دیکھ رہے ہیں اور انہیں اس میں ریڈیو کی مرتی ہوئی آواز ایک مرتبہ پھر ابھرتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایک ایسے وقت میں کہ جب نئی نسل Tik Tok, Youtubeاور Spotify جیسے میڈم پسند کر رہی ہے اور ریڈیو بالکل ان کی زندگی سے ناپید ہورہا ہے، آسٹریلین ریڈیو کی اس کاوش کو ریڈیو کو ایک بار پھر زندہ کرنے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ مصنوعی ذہانت کے ریڈیو میں استعمال پر مزید تحقیق کی جائے تو ایسے نئی الگورتھم ترتیب دیئے جاسکتے ہیں جس میں صارفین کی دلچسپی کے مطابق موسیقی اور ریڈیو پروگرامز ترتیب دیئے جاسکتےہیں جو ریڈیو میں نئی جان ڈال سکتا ہے۔