آسمانی بجلی کے ملین وولٹ کرنٹ سے کیسے بچیں؟

ہفتہ کے روز سے پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہونے والی بارش کے دوران ملک بھر کے مختلف علاقوں میں آسمانی بجلی گرنے سے 26 افراد جاں بحق ہو گئے ہیں جبکہ تین دن سے جاری بارش کئی علاقوں میں تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔
ہفتے کے روز گرنے والے آسمانی بجلی میں سب سے زیادہ ہلاکتیں رحیم یار خان میں ہوئیں جہاں گھنٹے بھر کی بارش میں شدید آسمانی بجلی گرنے سے 9 افراد لقمہ اجل بن گئے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ واقعہ رحیم یار خان کے گاؤں بستی پہلواڑ میں پیش آیا جہاں دو بچے آسمانی بجلی گرنے سے جاں بحق ہوئے۔
پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث شدید بارشیں اکثر قیمتی انسانی جانیں لے جاتی ہیں۔ بے موسم کی بارشیں ایک طرف جبکہ پاکستان میں مون سون کی بارشیں جہاں سیلاب لاتی ہیں وہیں اس موسم میں آسمانی بجلی گرنے سے کئی حادثات پیش آتے ہیں۔ ایسے میں ماہرین کئی احتیاطی تدابیر بتاتے ہیں جن پر عمل کر کے بجلی کے ملین وولٹ کرنٹ سے بچا جا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کیوں کہ پانی بجلی کے کنڈکٹر کے طور پر کام کرتا ہے اس لیئے طوفان اور گرج چمک کے دوران کشتی میں سوار افراد بروقت کنارے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔ لوہے کے پائپ اور فون لائنز بھی آسمانی بجلی کی ترسیل کا باعث بنتے اس لیئے ایمرجنسی کال کے علاوہ فون کے استعمال سے گریز کریں۔

مزید پڑھیں: کیا آپ غلط طریقے سے دوا کھاتے ہیں؟

بارش کے وقت میں آگر آپ باہر ہوں تو تھوڑی نچلی جگہ کا انتخاب کرتے ہوئے درختوں ، باڑ اور کھمبوں کے قریب پناہ لینے سے گریز کریں۔ اسی طرح ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ گاڑی میں سفر کر رہے ہوں اور محفوظ پارکنگ میسر نہ ہو تو گاڑی کے اندر ہی بیٹھے رہیں، انجن بند کردیں اور شیشے چڑھا لیں۔ گاڑی کے کسی دھاتی حصے کو چھونے سے پرہیز کریں۔
اگر آپ کسی صورت پناہ حاصل نہ کر پارہے ہوں اور اب بجلی گرتی دکھائی دینے لگے تو اکڑوں بیٹھ جائیں، کانوں میں انگلیاں دے کر سننے کی حس کو متاثر ہونے سے بچائیں جبکہ بجلی کی تیز روشنی سے بچنے کیلئے آنکھیں بند کرلیں۔ زمین پر سیدھا لیٹنے سے گریز کریں۔
اگر آپ کے قریب کہیں پانی جمع ہے یا کوئی دھاتی چیز آپ سے چند قدموں کے فاصلے پر ہی تو خود کو علیحدہ کر لیں۔ اگر کسی شخص پر یہ ناگہانی آفت آ ٹوٹے اور وہ اس خطرناک بجلی کا نشانہ بن جائے تو فوری طبی امداد کیلئے ریسکیو ادارے کو طلب کریں۔ یاد رکھیں متاثرہ شخص کو چھونے سے کوئی خطرہ نہیں۔ یوں اکثر ہم اس وجہ سے طبی امداد دینے سے گریز کرتے کیونکہ ہمیں خود کرنٹ لگنے کا خطرہ رہتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں