سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے ارکان فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پر مقدمات کے کیس میں انتہائی اہم ریمارکس دیتے رہے۔ خاص طور پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس عمل پر وہ بنیادی سوالات اٹھائے جو اس کی قانونی و اخلاقی پوزیشن کو چیلنج کرتے ہیں۔ ان کا سب سے مناسب سوال تھا، جو شخص ملٹری ڈسپلن میں آتا ہی نہیں وہ اس کا پابند کیسے ہو سکتا ہے؟ فوجی تنصیبات پر حملہ بھی انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت جرم ہے۔ یعنی اس کا مقدمہ چلانے کے لیے انسداد دہشگردی عدالتیں موجود ہیں، فوجی عدالتوں میں مقدمات نہیں چل سکتے۔
ان تمام ریمارکس کے بعد امید کی کرن پیدا ہو گئی تھی کہ آئینی بینچ آئین کے مطابق فیصلہ کرتے ہوئے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پر مقدمات چلانے کی اجازت نہیں دے گا۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے گزشتہ روز شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی مشروط اجازت دے دی۔ اس کے ساتھ ہی ان مقدمات، ان کا کارروائی اور عام شہریوں کو ملنے والی سزاؤں کو قانونی حیثیت بھی مل گئی.
26 ویں ترمیم سے پہلے جب آئینی بنچ وجود میں نہیں آیا تھا سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ نے متفقہ فیصلے میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائلز کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے 9 مئی کے تمام مقدمات فوجی عدالتوں کی بجائے فوجداری عدالتوں میں چلانے کا حکم دیا تھا۔ بنچ میں شامل جسٹس یحییٰ آفریدی نے فیصلے کی چند شقوں سے اختلاف کیا تھا
مزید پڑھیں:بڑے صاحب کا خط آگیا تو ڈی سیٹ کردو، عادل بازئی کیس کا فیصلہ کالعدم
جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں قائم اس بنچ میں جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس مظاہر نقوی شامل تھے۔
سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اس سے پہلے سماعت کے دوران حکم دیا تھا کہ سپریم کورٹ کو مطلع کئے بغیر فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پر مقدمات شروع نہ کئے جائیں۔ ساتھ ہی انہوں نے وارنگ دی تھی کہ اگر ایسا کیا گیا تو ذمہ داروں کو عدالت میں طلب کر لیا جائے گا۔ دوسری طرف اس وقت کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے فوجی عدالتوں میں عام شہریوں پر مقدمات کا بھرپور دفاع کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ فوج کے قوانین کے تحت مقدمات بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ تقاضوں کو پورا کرتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر صحافی اویس حمید کے ایکس اکاؤنٹ سے لی گئی ہے