
پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے ریکارڈ کیسز ڈیڑھ کروڑ سے زائد ہیں جبکہ وہ کیسز جن کی ابھی تشخیص نہیں ہو سکی ہے وہ الگ ہیں۔اس حوالے سے پاکستان جی ائی لیور ڈیزیزز سوسائٹی کے زیراہتمام دو روزہ کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جس میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے حوالے سے آگاہی اس کو ختم کرنے کے لیے تجاویز پیش کی گئیں۔
اس موقع پر صدر پاکستان جی ائی لیور ڈیزیزز ڈاکٹر لبنیٰ کمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس بی اور سی کے خاتمے کے لیے شناختی کارڈ بنوانے سے قبل ہیپاٹائٹس کی سکریننگ لازمی قرار دی جانی چاہیے اور قومی شناختی کارڈ میں بھی اس کا اندراج ضروری بنایا جانا چاہیے۔
انہوں نے یہ بھی تجویز دی کہ بچوں کو پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر ویکسین لازمی قرار دی جائے اور اسے برتھ سرٹیفکیٹ کے ساتھ لازم منسلک کر دیا جائے ۔
ہیپاٹائٹس کے لیے ویکسینیشن نہ کرانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر لبنیٰ کمانی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بہت سے بچے گھروں میں پیدا ہوتے ہیں جس پر والدین ان کی ویکسینیشن نہیں کراتے اس کے لیے مڈ وائفرز کی تربیت ضروری ہے۔
مزید پڑھیں:دنیا کے 100 ڈاکٹرز کی فہرست میں پاکستانی ڈاکٹر شہزاد بیگ کی کیا خدمات ہیں؟
تقریب سے خطاب میں ڈاکٹر شاہد احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی شرح 11 سے 12 فیصد تک ہے اور پاکستان ہیپاٹائٹس کی پھیلاؤ میں چین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں بہت سے لوگ عطائیوں اور سنیاسی بابوں کے پاس جاتے ہیں جو بلا وجہ کے انجکشن لگاتے رہتے ہیں جو اس بیماری کے پھیلاؤ کا ایک موجب ہو سکتے ہیں ۔
کانفرنس سے اظہار خیال کرنے والوں ڈاکٹروں نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس معاملے پر توجہ دے تاکہ 2030 تک اس بیماری پر مکمل قابو پایا جا سکے۔
2 Comments