بھارتی انتخابات سے قبل ہندوتوا فلمیں‌ووٹرز کی رائے تبدیل کر پائیں گی؟

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کی دعویدار بھارتی جمہوریت آج بھی انتخابات میں پاکستان اور مسلمان دشمنی اور ہندوتوا نظریات سے بھرپور کمپین سے الیکشن جیتنے کے طرز سیاست سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ یوں رواں سال ہونے والے انتخابات سے قبل بھی ایسی فلمیں آ رہی ہیں جو ہندوتوا نظریات کو فروغ دے رہی ہیں اور ان فلموں کے نشر ہونے سے حکمراں جماعت بی جے پی کو فائدہ ہونے جارہا ہے کیونکہ فلم رائے عامہ کی تشکیل کا ذریعہ ہوا کرتی ہے۔
یوں توگزشتہ دو مرتبہ انتخابات جیتنے والی بی جے پی کے تیسری بار بھی انتخابات جیتنے کے وسیع امکانات ہیں۔ تاہم ان کے مدمقابل کانگریس پارٹی اور مسلم کمیونٹی ہندوتوا نظریات پر بننے والے فلموں کے الیکشن سے قبل ریلیز ہونے کو مودی حکومت کی الیکشن کمپین کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
گزشتہ انتخابات سے قبل 2019 میں انتخابات سے چند روز قبل دو فلمیں دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر اور ہوکلڈ شاستری ریلیز ہوئیں تھیں۔ دی ایکسیڈنٹل پرائم منسٹر میں دکھایا گیا تھاکہ کس طرح سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے کانگرس جماعت کو قبضے میں لے رکھا ہے۔
اسی طرح ہوکلڈ شاستری میں سابق وزیر اعظم لال بہادر شاستری کی موت کو لے کر شکوک و شہبات پھیلائے گئے تھی۔ دونوں فلموں کو کانگرس کی جانب سے انتخابات میں ان کی پارٹی کو نشانہ بنانے اور بی جے پی کو فائدہ دینے کی کوشش قرار دیا تھا۔
مزید پڑھیں:‌الیکشن کمشنر مستعفیٰ
اب جبکہ ایک بار پھر انتخابات کا ماحول ہے تو گزشتہ سال تین ایسی فلمیں ریلیز ہوئیں جو ہندوتوا نظریات کی فروغ پر مبنی ہیں۔ دی کیرالہ سٹوری نامی فلم میں اسلام قبول کرنے والی ایک نرس کی کہانی تھی جو آئی ایس آئی میں شامل ہوتی ہے اور اب افغانستان میں قید ہے۔ اس فلم کو بی جے پی نے کافی پروموٹ کیا۔
اسی طرح دی کشمیر فائلز نامی فلم میں سن 1990 میں کشمیر سے پنڈتوں کے انخلاء کو موضوع بنایا ہے جبکہ تیسری فلم دی ویکیسن وار میں جو دراصل کورونا ویکیسن سے متعلقہ ہے تاہم ناقدین نے اسے ہندوتوا پروپیگنڈا پر مبنی ہونے کا الزام لگایا ہے۔
اس کے بعد رواں سال جنوری میں سے اب تک کئی ہندوتوا نظریات پر مبنی فلمز ریلیز ہو چکی ہیں۔ اب جبکہ انتخابات قریب آ رہے ہیں تو آرٹیکل 370 نامی فلم بھی سامنے آئی ہے جس میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تبدیل کرنے کی توجہیات بیان کی جارہی ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا مؤقف ہے کہ فلم انٹرٹینمنٹ کا ذریعہ ہے اسے سیاست کیلئے استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ اگر فلم کو سیاست میں لانا مقصود ہو تو کسی ایسے ہدایتکار کی مدد لینی چاہیے جو تعصبات سے پاک ہو۔

بھارتی انتخابات سے قبل ہندوتوا فلمیں‌ووٹرز کی رائے تبدیل کر پائیں گی؟” ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ بھیجیں