بلاگزاویہ

کیا سپریم کورٹ سے بلے کا نشان واپس ملے گا؟

پشاور ہائیکورٹ نے انٹرا پارٹی الیکشن کیس میں 26 دسمبر کی فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کی درخواست منظور کر لی۔ یوں ایک بار پھر پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھن گیا۔فیصلے کے بعد بیرسٹر گوہر خان نے اعلان کیا کہ پی ٹی آئی کسی صورت انتخابات کا بائیکاٹ نہیں کرے گی اور اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرے گی۔
اب تمام تر نظریں سپریم کورٹ پر لگی ہیں، جس میں پی ٹی آئی کو بظاہر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کسی قسم کی امید باقی نہیں رہی تاہم فیصلہ ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔پی ٹی آئی کے پاس پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے میں بہت سے قانونی سقم موجود ہیں جن کی بنیاد پر فیصلہ چیلنج کیا جا سکتا ہے اور ممکنہ طور پر ریلیف ملنے کے چانس بھی ہیں۔
اس میں پہلی بات یہ کہ عدالتی قوانین کے مطابق سنگل بنچ کا فیصلہ دو رکنی بینچ معطل کر سکتا ہے جبکہ دو رکنی بینچ کا فیصلہ تین رکنی بینچ معطل کر سکتا ہے۔ لیکن پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ ان قوانین کے بالکل بر عکس ہے۔
پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس کامران حیات میاں خیل نے 26 دسمبر کو پی ٹی آئی کی درخواست پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے بلے کا انتخابی نشان واپس کرنے اور پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا فیصلہ الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر ڈالنے کے احکامات دیئے تھے۔ عدالت نے معاملہ عدالتی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد ڈویژنل بینچ کے سامنے لگانے کے احکامات دیئے تھے جس کیلئے 9 جنوری کی تاریخ کے نوٹسز جاری ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: جب ن لیگ اورپیپلز پارٹی کو انتخابی نشان سے محروم کیا گیا

تاہم آج عدالتی تاریخ کا حیران کن واقعہ پیش آیا جب جسٹس کامران حیات میاں خیل کے ایک رکنی بینچ کے فیصلے کو ایک رکن پر مشتمل جسٹس اعجاز خان کی عدالت نے معطل کر دیا۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نے بلے کے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دینے کے فیصلے میں درخواست گزار اکبر ایس بابر اور دیگر اراکین تھے یوں پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے متاثرین بھی یہی لوگ بنتے ہیں ۔ تاہم ان اراکین کی جانب سے فیصلہ چیلنج کرنے کی بجائے الیکشن کمیشن فریق بن کر عدالت پہنچ گیا۔یوں الیکشن کمیشن کی تحریک انصاف کے خلاف ایک سیاسی پارٹی کی طرح سامنے آنا ایک آئینی ادارے کی از خود توہین کے زمرے میں آتا ہے۔
یوں اگر تحریک انصاف سپریم کورٹ سے رجوع کرتی ہے توقانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ 90 فیصد امکانات ہیں کہ پی ٹی آئی کو بلے کا انتخابی نشان واپس مل جائےگا۔ ماضی میں بھی ایسے فیصلے سپریم کورٹ سے آتے رہے ہیں جیسا کہ پیپلز پارٹی کو تیر کا انتخابی نشان واپس ملنے کا معاملہ۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button