ملک کی سب سے بڑی جماعت کے الیکشن لڑنے پر پابندی عائد

اس وقت پاکستان میں الیکشن شیڈول آچکا ہے اور سیاسی جماعتیں الیکشن کیلئے بھرپور تیاری میں مصروف ہیں۔ تاہم ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکا جا رہا ہے۔
بظاہر ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں صرف ایسے حالات ہیں، تاہم پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں بھی حالات اس سے کچھ مختلف نہیں۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی اسلامی پارٹی جماعت اسلامی پر پابندی عائد ہے اور وہ الیکشن میں حصہ نہیں لے پائے گی۔ حزب اختلاف کی باقی تمام چھوٹی بڑی پارٹیاں بھی زیرعتاب ہیں اور انکے سینکڑوں کارکنان گرفتار کیئے جا چکے ہیں.
بنگلہ دیش میں نئے سال کے آغاز پر عام انتخابات شیڈول ہیں جس کے پیش نظر انتخابی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے ۔ تاہم اپوزیشن جماعتوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کر رکھا ہے.اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے طرز حکومت کو آمرانہ قرار دے کر ان کے استعفیٰ کیلئے مظاہرے کر رہی ہیں جس کے بعد ہزاروں مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔اپوزیشن جماعتیں چاہتی ہیں کہ وزیراعظم شیخ حسینہ الیکشن سے قبل اقتدار چھوڑ دیں تاکہ منصفانہ اور شفاف الیکشن کرائے جا سکیں۔
بنگلہ دیش میں 7 جنوری 2024 کا الیکشن ہونے جا رہے ہیں تاہم اپوزیشن جماعتوں کو دبایا جا رہا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے بائیکاٹ کے پیش نظر ملک میں ہونے والے عام انتخابات کی ساکھ پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔ملک کی سب سے بڑی مذہبی پارٹی جماعت اسلامی پر انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی ہے۔
مزید پڑھیں: جب عوام کی مقبول پارٹی کو حکومت نہ دینے پر ملک ٹوٹا
گزشتہ ماہ بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نے ہائیکورٹ کی جانب سے جماعت اسلامی کو کالعدم قرار دیئے جانے کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ جس کے باعث جماعت اسلامی آئندہ سال ہونے والے الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہے.
جماعت اسلامی کے علاوہ حزب اختلاف کی سب سے بڑی پارٹی بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی سربراہ خالدہ ضیاء جو کہ دو بار وزیر اعظم بھی رہ چکی ہیں وہ ان دنوں اپنے میں نظر بند ہیں۔اس سے قبل خالدہ ضیاء کو 17 برس کی قید کی سزا سنائی گئی تھی، تاہم 2020 میں انہیں رہا کر دیا گیا اور انکو گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ خالدہ ضیاء کی غیر موجودگی میں پارٹی امور چلانے والے مرزا فخر السلام عالمگیر کی ضمانت بھی گزشتہ دنوں عدالت نے مسترد کر دی تھی۔
بی این پی کے قانونی امور کے سربراہ قیصر کمال کے مطابق یہ ایک سیاسی منصوبہ ہے جس کا مقصد یہی ہے کہ کوئی اپوزیشن رہنما آواز بلند نہ کر سکے۔ بی این پی کا کہنا ہے کہ 25 اکتوبر سے اب تک ان کے 22 ہزار کارکنان گرفتار ہو چکے ہیں۔ جبکہ جماعت اسلامی کا کہنا ہے 25 اکتوبر سے اب تک ان کے 31 سو سے زائد کارکنان گرفتار ہو چکے ہیں۔