اہم خبریںپاکستانسیاست

فوجی عدالتوں میں‌9 مئی کے ملزمان کے کیسز کہاں تک پہنچے؟

گزشتہ روز سپریم کورٹ کی جانب سے سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے حق میں فیصلہ دیئے جانے کے بعد سے ایک بار پھر سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ ٹرائل کہاں تک پہنچا، فیصلہ کب تک آ سکتا ہے؟ تاہم اس حوالے سے کچھ خاص معلومات اب تک منظر عام پر نہیں آ سکیں ہیں۔
9 مئی کے واقعے کے بعد سے تقریباً 104 افراد فوجی عدالتوں میں کیسز بھگت رہے ہیں۔ تاہم ان کیسز کی زیادہ تر معلومات خفیہ ہیں اور آج تک اس حوالے سے خاطر خواہ معلومات موصول نہیں ہوئیں۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران بھی جسٹس مسرت حلالی نے بھی مختلف سوالات پوچھے تو محسوس ہوا کہ جیسے اٹارنی جنرل بھی اس حوالے سے زیادہ معلومات نہیں رکھتے۔
دراصل ملٹری کورٹس میں چلنے والے کیسز کی سماعت خفیہ ہوا کرتی ہے۔ عموماً گھر کے افراد تک کو کورٹ روم تک رسائی نہیں ہوتی اور فیصلہ آنے کے بعد ہی پتا چلتا ہے کہ سزا کس نوعیت کی ہے۔
9 مئی کے واقعے کے بعد ملزمان کو دو طرح سے فوجی عدالتوں کے حوالے کیا گیا۔ جن افراد کا انسداد دہشتگردی کی عدالتوں میں پہلے سے کیس چل رہا تھا انہیں عدالتوں سے تحریری حکم نامے کے ذریعے فوجی عدالتوں کے سپرد کیا گیا۔اسی طرح جو افراد مختلف تھانوں میں گرفتار ہوئے تھے ان کا نام صرف روزنامچوں میں انداراج کرنے کے بعد پولیس سے فوج کی کسٹڈی میں دے دیا گیا۔
9 مئی کے دن جلاؤ گھراؤ میں ملوث میانوالی کے ایک رہائشی کے بارے ان کے قریبی عزیز سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ابھی کچھ پتا نہیں، بس یہی خبر ہے کہ تکلیف میں ہے اور اگر سزا ہوتی ہے تو لمبے عرصے کی ہو گی۔ ٹرائل بارے کچھ معلوم نہیں۔
اسی طرح سانحہ نو مئی میں ملوث ایک نوجوان کے والد جو خود وکیل ہیں، انہوں نے نجی نیوز چینل کو بتایا کہ وہ چونکہ خود وکیل ہیں اسلیئے انہیں یہ سہولت دی گئی ہے کہ وہ اس عدالت میں اپنے بیٹے کا دفاع کر سکیں۔ تاہم ٹرائل کے حوالے سے کسی بھی قسم کی پیشرفت کے حوالے سے انہیں بات کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: جب نواز شریف "شیر” کانشان تبدیل کرانے عدالت گئے

عمران خان کے بھانھے حسان نیازی کا کیس میں اس وقت ملٹری کورٹس میں ہے جس بارے ان کے والد حفیظ اللہ نیازی کا کہنا ہے کہ وکلاء کا ایک ہی پینل ہے جو عدالت میں ملزمان کی نمائندگی کرتا ہے۔ بس وہی پینل ہی عدالتوں میں پیش ہوتا ہے اور وہ ان کیسز میں پیشرفت سے آگاہ ہیں۔ تاہم گھر کے افراد کو ملنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
گزشتہ روز عدالتی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 104 ملزمان کا ٹرائل جاری ہے اور بہترہو گا کہ ٹرائل مکمل ہو جائے اگر ایسا ہو جاتا تو شاید پہلے ہی بہت سے لوگ بری ہو چکے ہوتے۔
تاہم سپریم کورٹ نے ابتدائی فیصلہ جس جلدی میں دیا ، اس کے بعد کیس کی اگلی تاریخ اتنی ہی دیر کی رکھی۔ چند منٹوں کی سماعت کے بعد فیصلہ سنانے والے بینچ نے کیس کی مزید سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے تک کیلئے ملتوی کر دی ہے۔
فیصلہ کے تحت فوجی عدالتیں ٹرائل جاری رکھ سکتی ہیں لیکن حتمی فیصلہ جاری نہیں کر سکتی ۔ حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کی مشاورت سے منسوب ہے۔
یوں لگتا ہے کہ ٹرائل بھگتنے والے ان افراد کے صبر کا ابھی کافی امتحان ہے۔ اگر ملٹری کورٹس کچھ افراد کو ناکافی شواہد کی بنیاد پر بری کرنا بھی چاہیں تو سپریم کورٹ کی آبزرویشن آنے تک یہ معاملہ ایسے ہی رہے گا۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button