
ٹیکنالوجی کی دنیا میں پاکستان اس وقت ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ایک طرف تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی ہے اور دوسری طرف اس ٹیکنالوجی کو ریگولیٹ کرنے کیلئے ریاستی سطح پر طاقت کا استعمال۔
کاروبار، معلومات اور دیگر سرگرمیوں کیلئے اب صارفین ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز پر انحصار کر رہے ہیں۔
لیکن حکومتی سطح پر مس انفارمیشن، قومی سلامتی اور توہین مذہب جیسے الزامات کے سائے میں ڈیجیٹل کنٹرول کا رحجان بڑھ رہا ہے۔
اس تحریر میں ہم پاکستان میں انٹرنیٹ قوانین اور سوشل میڈیا ریگولیشن کیلئے اٹھائے جانے والے اقدامات اور ان پر تحفظات کا ذکر کریں گے۔
ساتھ ہی ریاستی اقدامات جیسا کہ بڑھتی ہو سنسرشپ، سخت قوانین، انٹرنیٹ مانیٹرنگ اور ریاستی اداروں کو سوشل میڈیا کے ذاتی ڈیٹا تک رسائی کے موضوعات بھی زیر بحث لائے جائیں گے۔
انٹرنیٹ قوانین اور سوشل میڈیا ریگولیشن 2025:
پاکستان میں سال 2025 سوشل میڈیا ریگولیشن کے حوالے سے بدترین سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
چند روز ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ نے پاکستان میں آزادی اظہار رائے پر بڑھتی ہوئے قدغن کو بے نقاب کیا گیا۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان چین ، جرمنی ، امریکہ اور فرانس جیسے ممالک سے ٹیکنالوجی کے حصول کر کے ایسا سسٹم ترتیب دیا ہے جس سے صارفین کے بنیادی حقوق متاثر ہور ہے ہیں۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پاکستان نے سیکورٹی اداروں کو صارفین کی کالز، پیغامات، واٹس ایپ سمیت دیگر انٹرنیٹ سرگرمیوں پر نظر رکھنے کیلئے لافل انٹرسپٹ منیجمنٹ سسٹم متعارف کرایا ہے۔
اس نظام کے تحت سیکورٹی ادارے کسی بھی صارف کی لوکیشن اور دیگر حساس ڈیٹا معلوم کر سکتے ہیں۔
اگر حکومت یا ریاستی اداروں کو کسی صارف کا ایسا ڈیٹا ضرورت بھی ہو تو اس کیلئے عدالتی اجازت لازم ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں اب یہ بنا عدالتی اجازت کے سب کی نگرانی کیلئے استعمال ہو رہا ہے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزی ہے۔
رپورٹ میں حکومت کی جانب سے ویب مانیٹرنگ سسٹم جسے پاکستان میں فائروال کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے کے استعمال کئے جانے کا انکشاف بھی ہوا۔
یہ آن لائن مواد کو فلٹر کرتا ہے اور اس سے ریاست کے خلاف یا دیگر کانٹینٹ ہٹا دیا جاتا ہے۔
ان دو سسٹم نے مل کر پاکستان میں آن لائن سرگرمیوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ سینکڑوں ویب سائٹس بلاک ہوئیں، جب کے ان سسٹم کے اطلاق کے باعث انٹرنیٹ کی رفتار بھی سست دیکھی گئی۔
آئی ٹی بزنس اور فری لانسرز کو نقصان:
بہت سی ٹیکنالوجی کمپنیوں نے اس رد عمل میں پاکستان میں اپنے بزنس کو سمیٹ دیا ہے۔ جبکہ گزشتہ سال انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے پاکستان کی آئی ٹی ایکسپورٹس میں بھی متاثر ہوئیں۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان کو انٹرنیٹ کی اس بندش سے 62۔1 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔
پاکستان میں فری لانسرز کو بھی ان بندشوں کے باعث کاروبار میں دقت کا سامنا کرنا پڑا۔
بہت سے فری لانسنگ پلیٹ فارمز نے گزشتہ سال پاکستانی فری لانسرز کو ڈاؤن رینک کیا اور بہت سے مقامات پر فری لانسرز کو ڈھونڈنے والوں کو سروس کی بہتری کیلئے پہلے ہی بتا دیا جاتا تھا کہ وہ پاکستانی فری لانسرز پر انحصار نہ کریں۔
سوشل میڈیا پالیسی پاکستان؛ پیکا ایکٹ اور دیگر سختیاں
پاکستان میںانٹرنیٹ قوانین اور سوشل میڈیا ریگولیشن میں گزشتہ دو سالوں میں شدید سختیوں کا سامنا رہا ہے۔
رواں سال پیکا ایکٹ 2016 میں ترامیم کر کے اس عمل کو مزید سخت بنا دیا گیا۔
پیکا ترامیم 2025 کے تحت چند نئی اتھارٹیاں بھی قائم کی گئیں جس نے ظاہر کیا کہ حکومت سوشل میڈیا ریگولیشن کو لے کر کس قدر سنجیدہ ہے۔
پیکا ایکٹ 2025 کے تحت سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پر کانٹنیٹ کی مانیٹرنگ کی مجاز ہے اور کسی بھی خطرناک ، توہین آمیز مواد کو ہٹانے کا کام کرتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی نے ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کی جگہ سنبھال لی ہے۔ اس سے اس ادارے کی تفتیشی اور تحقیقاتی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔
اس کے علاوہ سوشل میڈیا کمپلینٹ کونسل اور ٹربیونل کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے تا کہ ان کیسز کو باآسانی نمٹایا جاسکے۔
پیکا ترامیم میں سیکشن 26A کا اضافہ کیا گیا ہے جو کہ غلط معلومات پھیلانے پر 3 سال قید 20 لاکھ جرمانے یا دونوں سزاؤں کو تجویز کرتا ہے۔
اس قانون کے استعمال نے اسے مزید متنازعہ بنادیا ہے۔ یہ قانون عدالتوں میں چیلنج ہے، صحافتی و قانونی تنظیمیں اس پر احتجاج کر رہی ہیں لیکن حکومت اسے بنیادی حقوق کی حفاظت کا قانون قرار دے رہی ہے۔
پی ٹی اے انٹرنیٹ ریگولیشن:
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) پاکستان میں ٹیلی کام سیکٹر کے معاملات دیکھنے کیلئے بنائی گئی تھی۔ اس کا بنیاد کام صارفین کو اچھی ٹیلی کام سروسز کی فراہمی تھا۔
لیکن بعدازاں اس کے اختیارات میں وقتاً فوقتاً تبدیلی سے اسے ایک انٹرنیٹ ریگولیشن اتھارٹی بنا دیا گیا ہے۔
اب یہ اتھارٹی سوشل میڈیا ایپ پر پابندیوں ، انٹرنیٹ بندش کے حکومتی فیصلوں پر عملدرآمد کروانے اور اظہار رائے پر قدغن کے آلے کے طور پر استعمال ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ پی ٹی اے میں اب غیر شفاف تقرریوں کا رحجان بھی زور پکڑ رہا ہے جس کا بنیادی مقصد حکومتی آلہ کار کے طور پر کام کرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کرنا ہے۔
اس کے علاوہ صارفین کے ڈیجیٹل حقوق کا تحفظ، بہتر سروسز کی فراہمی، صارفین کا تحفظ جیسے معاملات پر سے اس ادارے نے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔
سوشل میڈیا پر پابندیاں؛ فیس بک اور ٹویٹر پالیسی:
پاکستان میں سوشل میڈیا ایپ پر پابندی کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ فیس بک پر مارکیٹنگ اور دیگر سروسز کی فراہمی سے آمدن کمانے والے صارفین انٹرنیٹ کی بندشوں کی وجہ سے پریشان ہیں۔
اس کے علاوہ جیسے جیسے اب فیس بک پاکستان میں مونیٹائزیشن پالیسی کی طرف بڑھ رہا ہے، حکومتی سطح پر اس کے الٹ اقدامات کئے جارہے ہیں۔
ایکس کی بات کر لی جائے تو پاکستان میں گزشتہ سال یہ مکمل طور پر بند رہا ۔ عوامی احتجاج، سیاسی رہنماؤں کی قراردادوں ، عدالتی احکامات کے باوجود یہ پابندی نہ ہٹائی گئی۔
مضحکہ خیز بات یہ کہ حکومتی شخصیات بشمول وزیراعظم اور وفاقی وزراء اپنے اہم سرگرمیوں بارے آگاہ کرنے کیلئے اسی پلیٹ فارم کا انتخاب کرتے ہیں۔
حکومتی اراکین کی جانب سے وی پی این لگا کر ایکس کی سروسز تک رسائی جاری رہی ، لیکن پابندی نہ ہٹائی گئی۔
اس کے علاوہ حکومتی سطح پر دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بھی مختلف طرز کی پابندیاں عائد کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
حال ہی میں پاکستانی حکومت کی جانب سے چند تنقید کرنے والے صحافیوں کے یوٹیوب اکاؤنٹ بند کرنے کی کوشش بھی کی گئی اور اس کیلئے عدالتی کندھا استعمال کیا گیا۔
ڈیجیٹل قوانین اور حقوق کو سلب کرنے کا سلسلہ جاری :
پاکستان کے آئین میں ہر شہری کے حقوق کو تحفظ حاصل ہے جس میں ایک بنیادی حق آزادی اظہارِ رائے کا بھی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حقیقی دنیا ہو یا ڈیجیٹل دنیا، شتر بے مہار آزادی کا کوئی حامی نہیں۔
لیکن جب یہ انٹرنیٹ قوانین اور سوشل میڈیا ریگولیشن حکومتی گن گانے والوں کیلئے الگ اور تنقید کرنے والوں کیلئے الگ ہوں تو ان کی شفافیت پرسوال تو اٹھتا ہے۔
جدید دور میں کاروبار، نوکری، تعلیم سب ڈیجیٹل ہے۔ چند افراد کی ریگولیشن کی چکر میں مکمل آبادی کو ڈیجیٹل حقوق سے محروم کرنا عقلمندی کا فیصلہ نہیں۔
گزشتہ دو سال سے حکومتی اقدامات عوام کے ڈیجیٹل حقوق کی راہ میں رکاوٹ کی طور پر حائل رہے ہیں۔
افسوسناک یہ کہ اپنے ڈیجیٹل حقوق کیلئے جائز آواز اٹھانے والے بھی انتقامی کارروائیوں کی نظر ہورہے ہیں۔
یہ فیصلہ کن دور ہے جو ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ٹیکنالوجی کے اس دور میں ہم نے بقیہ دنیا کے ساتھ چلنا ہے یا ہمیشہ کی طرح پیچھے رہنے پر ہی اکتفاء کرنا ہے۔