سائنس اور ٹیکنالوجی

نیورولوجیکل اینہانسمنٹ: دماغی صلاحیت بڑھانے کی ٹیکنالوجی

نیورو سائنس ٹیکنالوجی کی مدد سے دماغی صلاحیت کو بڑھانا (نیورولوجیکل انہانسمنٹ) جو کسی دور میں ایک قصہ کہانی سمجھی جاتی تھی، اب حقیقت کا روپ دھار چکی ہے۔

دماغی صلاحیت کو بڑھانے کے یہ طریقے یا تو ہمیں بچوں کی خیالاتی دنیا میں ملا کرتے تھے یا پھر افسانوی کہانیوں میں۔

سمارٹ ڈیوائسز اور ایپس کے ذریعے دماغی صلاحیت بڑھانے سے لیکر جدید کلینکل طریقوں سے دماغی کارکردگی بڑھانے تک، یہ عمل اب باآسانی میسر ہیں۔

دماغی اور اعصابی بیماریوں کی بڑھتی ہوئی شرح اب تقریباً وباء کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

اس لئے یہ پیشن گوئی کی جارہی ہے کہ   اب نیورو سائنس ٹیکنالوجی کو  آنے والے چند سالوں میں ہماری روزِ مرہ زندگی کا اہم جزو سمجھا جانے لگے گا۔

یہ تحریر دماغی صلاحیت کو بڑھانے کی اس ٹیکنالوجی کو آسان طریقے سے سمجھنے کی کوشش کرے گی۔

اس کے علاوہ ہم ایسی ڈیوائسز کو بھی دیکھیں گے جو کہ دماغی صلاحیت بڑھانے یا نیورولوجیکل انہانسمنٹ کیلئے استعمال ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کے گرد گھومتی اخلاقی دائرہ کار/ نیورایتھکل موضوعات کا احاطہ کیا جائے گا۔

نیورولوجیکل اینہانسمنٹ ؛ ایک مختصر نظر

انسانی دماغ تقریباً 86 ہزاور نیورونز یا خلیے پائے جاتے ہیں جو اسے سائنسی دنیا کا ایک  پیچیدہ سٹرکچر بناتی ہیں۔

آج دنیا کی ہرشعبے میں ترقی کا راج ہے، اور یہی وجہ ہے کہ نیوروسائنس میں بھی جدید ریسرچ دیکھنے کو مل رہی ہے۔

نیوروسائنس ٹیکنالوجی میں جدت نیورولوجیکل انہانسمنٹ یا انسانی دماغی صلاحیت کو بڑھانے کے نت نئے طریقے سامنے لارہی ہے۔

دماغی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے ورزش اور غذاؤں کے استعمال سے بڑھ کر اب ایسے آلات سامنے آرہے ہیں جو کہ انسانی دماغ میں موجود نیورونز کو تحریک دے کر نیورولوجیکل انہانسمنٹ کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ایلون مسک کی ٹیکنالوجی نیورالِنک

نیورولوجیکل ریسرچ اور اپلیکیشن؛  دماغی کارکردگی بڑھانے کے طریقے

جدید ریسرچ کے ذریعے اب نیورو سائنس، سائیکالوجی، فارما کولوجی (علم الادویات)  کے امتزاج سے دماغی کارکردگی بڑھانے کے طریقے سامنے آرہے ہیں۔ نیورلوجیکل ریسرچ اور اس کی اپلیکیشن درج ذیل ہیں:

طرزِ زندگی کا لائف اسٹائل کے ذریعے ؛ دماغی فعالیت کی بہتری:

ورزش، اچھی نیند، دماغی خوراک اور دماغی کو تحریک دینے کیلئے کھیلی جانے والی گیمز دماغی صحت کے بنیادی اصول مانے جاتے ہیں۔

نیوروسائنس ٹیکنالوجی میں جدت کی بدولت اب ڈیجیٹل طریقے سے ان تمام اصولوں کی پیمائش کی جاسکتی ہے اور اسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

مثال کے طور پر ، گھڑی کے طرز کی ڈیوائس اپنی کلائی پر باندھنے سے آپ اپنی نیند کے سائیکل پر نظر رکھ سکتے ہیں۔ کتنی دیر گہری نیند رہی، کب نیند میں کمی واقع ہوئی، کب آنکھ کھلی اور کتنی دیر میں دوبارہ نیند آگئی ، یہ سب اب ممکن ہے۔

نیورولوجیکل ڈیوائسز ؛ ذہنی طاقت اور سمارٹ ٹولز:

یہ دماغ کیلئے خاص آلات ہوتے ہیں جو یا تو دماغ کو ہلکے سے سگنلز بھیج کر تحریک دیتے ہیں، یا دماغ کی سرگرمی دکھاتے ہیں جسے دماغ کا آئینہ (نیورو فیڈبیک ) کہا جاتا ہے۔

اس کے ساتھ چند ٹیکنالوجیز ایسی بھی ہیں جن کی مدد دماغ کو کمپیوٹر سے بات کرنے ، ہدایات دینے اور لینے کا موقع مل جاتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی دماغی بیماری کا شکار افراد اور ایسے افراد جو اپنی دماغی فعالیت کی بہتری چاہتے ہیں، یکساں مفید ہے۔

نوٹروپکس( دماغی صلاحیت بڑھانے کی ادویات):

یہ ایسی ادویات، مشروبات یا جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں جو کہ دعویٰ کرتی ہیں کہ ان کے استعمال سے دماغی صلاحیت میں اٖضافہ ہوگا۔

ان امراض کے ماہرین ڈاکٹرز مخصوص امراض جسا کہ ADHD یا یاداشت کی کمزوری میں ایسی ادویات تجویز کرتے ہیں۔

تاہم اب عام لوگ جو کسی بیماری کا شکار نہیں، دماغی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کیلئے ان دواؤں یا سپلیمنٹس کا استمال کرتے ہیں۔

یہ دوائیں کس حد تک معاون ہیں؟ اس پر ابھی کوئی حتمی دلائل نہیں دیئے جا سکتے۔ تاہم یہ ایک وائرل ٹرینڈ کی طرح آجکل بڑی پیمانے پر لی جانے والی ادویات ہیں۔

اس کے علاوہ اب مصنوعی ذہانت اور دیگر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کے اشتراک سے نیوروسائنس میں معجزاتی دریافتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ پھر وہ دماغ کے خراب حصوں کی مرمت ہو یا مصنوعی ذہانت کے کسی ماڈل کے استعمال سے نیورولوجیکل انہانسمنٹ، اب یہ سب ممکن ہورہا ہے۔

نیوروسائنس اور اخلاقی و قانونی پہلو:

فرض کریں کے آپکے دماغ کا سکین میسر ہو تو آپکی کیا پرائیویسی رہ جائےگی؟ اس لئے جوں جوں نیوروسائنس میں ترقی ہو رہی ہے، اس موضوع کے گرد کئی قانونی اور اخلاقی سوالات بھی اٹھ رہے ہیں۔

اس میں پہلا اخلاقی پہلو دماغی کی پرائیویسی کا ہی ہے جہاں یہ سوالات اٹھائے جارہے ہیں کہ اگر دماغ کو کمپیوٹر کے ساتھ جوڑا جاسکتا ہے تو پرائیویسی کا خیال کون رکھے گا؟

اس سے غلط استعمال بڑھے گا تو اسے روکنے کیلئے کون سامنے آئے گا؟

دوسرا پہلو ہر ٹیکنالوجی کی طرح اس ٹیکنالوجی کی بھی برابری پر مبنی رسائی کا ہے۔

اب تک تو یہ ٹیکنالوجی صرف ایک مخصوص طبقے تک محدود ہے۔ اس سے سوال اٹھ رہا ہے کہ اس میں جدت کے ساتھ کیا رسائی میں برابری کا قانون بھی نافذ ہوگا؟

نیوروسائنس ٹیکنالوجی کی عام رسائی کب تک ممکن ہو پائے گی؟ جیسے سوالات بھی اس کے اخلافی و قانونی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔

اسی طرح اس ٹیکنالوجی کے سماجی اثرات پر بھی بات کی جارہی ہے۔ اگر ایک ہی طبقے کو اس تک رسائی میسر ہو گی تو کیا وہ تعلیم، صحت، نوکری جیسی بنیادی ضروریات میں دوسروں کے حقوق کو چھین نہیں لے گا؟

اس لئے اس ٹیکنالوجی کے مںصفانہ استعمال کی بحث اب ایک تحریک کی شکل اختیار کر رہی ہے جس میں عالمی اداروں کو شامل کرنے پر زور دیا جارہا ہے، تاکہ یہ تحریک نتیجہ خیز ثابت ہو۔

اختتامیہ:

نیوروسائنس کی مدد سے نیورلوجیکل انہانسمںٹ کے بہت سے فائدے ہیں جس میں دماغی صلاحیت کو بڑھانا، دماغی بیماریوں کا علاج  اور بہتر طرزِ زندگی ممکن ہورہا ہے۔

لیکن اس ٹیکنالوجی میں احتیاط ضروری ہے جس کی ذمہ داری سائنسدانوں، ڈاکٹرز اور عام لوگ سب پر عائد ہوتی ہے۔

کیا ہی ہو کہ اگر اس ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال کے بعد ایک شخص جب واپسی کا راستہ پکڑے تو اسے کوئی راستہ ہی دکھائی نہ دے۔ اس لئے اعتدال ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button