
صوبہ پنجاب تقریباً 4 دہائیوں کے بعد بد ترین سیلاب کی زد میں ہے ۔ تباہ کن سیلاب تباہی کی نئی داستانیں رقم کر رہا ہے جس کے باعث معمولاتِ زندگی جمود کا شکار ہیں۔
سال 2025 کا مون سون ملک بھر بالخصوص صوبہ پنجاب کیلئے بہت خوفناک ثابت ہوا۔
پری مون سون، مون سون اور لیٹ مون سون کی موسلا دھار بارشیں اور انڈیا کی جانب سے چھوڑے گئے پانی کی وجہ سے پنجاب کا بیشتر حصہ اس وقت سیلاب کی زد میں ہے۔
سیلاب کے دوران پنجاب میں امدادی سرگرمیوں کی بات کر لی جائے تو پنجاب حکومت، صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)، وفاقی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے)، پاک فوج، این جی اوز اور رضاکار اس وقت مصروفِ عمل ہیں۔
تاہم عوامی سطح پر حکومتی اقدامات ناکافی قرار دیئے جارہے ہیں اور سیلابی علاقوں سے خوفناک معلومات سامنے آرہی ہیں۔
حکومت پنجاب سیلاب امدادی سرگرمیاں:
اس وقت حکومت پنجاب سیلاب امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہے جس میں وزیر اعلیٰ مریم نواز ، سینئر وزراء اور ضلعی انتظامیہ فلڈ ریلیف کیمپس میں شہریوں کی معاونت کر رہے ہیں۔
These visuals are a quiet reflection of the havoc devastating floods that swept across Punjab have inflicted in recent weeks, displacing hundreds of thousands, turning lives upside down, and yet, in that simple act, there was hope, he was safe now, and Alhamdolillah the journey… pic.twitter.com/pXlefiGNMs
— Maryam Nawaz Sharif (@MaryamNSharif) September 12, 2025
سیلاب زدہ علاقوں میں بحالی کیلئے بھی حکومتِ پنجاب کا پروگرام سامنے آچکا ہے جو کہ ایک مکمل پیکج ہے۔
حکومت پنجاب کے اس پیکج میں سیلاب کی نذر ہونے والے شہریوں کے لواحقین کیلئے مالی امداد، زخمیوں کیلئے مالی امداد شامل ہے۔
اسی طرح ایسے افراد جن کے جزوی یا مکمل گھر سیلاب کی نذر ہوئے، حکومت ان کی مالی امداد بھی کرے گی۔
حکومت پنجاب سیلاب متاثرین کی فصلوں اور مویشیوں کی نقصانات کا ازالہ بھی کرے گی۔
ان تمام تر اقدامات کی یقین دہانیوں کی باوجود شہری حکومتی اقدامات سے خوش نظر نہیں آرہے ۔
دوسری جانب سیلاب متاثرین کے درمیان موجود صحافی ایسی چیزیں سامنے لا رہے ہیں جو واقعتاً حکومتی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔
حکومت پنجاب کی سیلاب متاثرہ افراد کی بحالی کی سرگرمیاں ؛ شہری ناخوش کیوں؟
یوں تو حکومتِ پنجاب سیلاب متاثرین کی ہر ممکن مدد کی دعویدار ہے لیکن کئی مقامات پر حالات اس سے برعکس ہیں۔
جلالپور پیر والا اس وقت شدید متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے جہاں سیلاب نے مکمل تباہی مچا رکھی ہے اور قیمتوں جانوں کو خطرات لاحق ہیں۔
یہاں لوگوں کو کشتیوں کے ذریعے ریسکیو کیا جارہا ہے ، لیکن یہاں پہنچنے والے صحافی اسد اللہ خان نے اپنے ایک وی لاگ میں افسوسناک انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ وہ جب تک جلالپور پیروالا کے دو بڑے ریسکیو مقامات پر موجود تھے انہیں وہاں حکومتِ پنجاب اور ریسکیو 1122کی ایک بھی کشی لوگوں کو باہر نکالتے ہوئے نہیں دیکھی۔
سیلاب زدہ گاؤں اور شہر؛ ریسکیو کرنے کیلئے پیسوں کی مانگ:
جلالپور پیر والا کے مقام پر صحافی فہد شہباز خان کے شو میں مقامی افراد نے بتایا کہ وہ پرائیوٹ کشتی والوں کولاکھوں روپے دے رہے ہیں۔
ایک شخص نے فہد شہباز کے شو میں بتایا کہ وہ دس افراد تھے اور پرائیوٹ کشتی والوں کو 4 لاکھ روپیہ دیا۔
پرائیوٹ کشتی والوں کو 4 لاکھ دیا ہے دس افراد تھے ریسکیو کی کشتیاں کھڑی ہیں ان کی مٹھی میں پیسے دے دو تو کشتی چلائیں گے ریسکیو والے بھی ایک لاکھ روپیہ مانگ رہے ہیں ! متاثرین سیلاب جلال پور پیر والا ۔۔ pic.twitter.com/tYoDfloSDX
— AMJAD KHAN (@iAmjadKhann) September 13, 2025
مقامی افراد نے ریسکیو 1122 پر الزام عائد کیا کہ وہ بھی متاثرین سے ایک ، ایک لاکھ روپے کی مانگ کر رہے ہیں۔
پنجاب فلڈ ریلیف کیمپ، ذاتی تشہیر سے آگے نہ بڑھ سکے:
ایک طرف ناکافی انتظامات تو دوسری جانب پنجاب حکومت اس مشکل وقت میں بھی ذاتی تشہیر سے باز نہ آئی۔
چند این جی اوز اور رضاکاروں نے شکایت کی کہ حکومت انہیں متاثرین تک پہنچنے والی امداد پر مریم نواز( پنجاب حکومت) کا نام لگانے پر مبجور کر رہی ہے۔
ن لیگ کے سابق رہنما دانیال عزیز نےنجی نیوز چینل کے ایک شو میں دعویٰ کیا کہ ان کے حلقے میں جو لوگ ذاتی سطح پر متاثرین کی مدد کرنا چاہ رہے ہیں انہیں مریم نواز کے بینر لگانے پر مجبور کیا جارہا ہے۔
دانیال عزیز نے بتایا کہ ایسا نہ کرنے پر ان کے حلقے کے لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور ان کے دو دن بعد ضمانت ہوئی۔
وزیر اعلیٰ پنجاب کی جانب سے سیلاب متاثرین میں تقسیم کئے گئے فوڈ ہیمپر کی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہورہی ہیں۔
ایسی ہی ایک تصویر صحافی مقدس فاروق اعوان نے اپنے ایکس اکاؤنٹ سے شیئر کی جس میں ضلعی انتظامیہ رحیم یار خان کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب کی تصویر کے ساتھ ایک فوڈ ہیمپر دکھایا گیا ہے۔
فوڈ ہیمپر میں ایک چپس اور ایک جوس کا ڈبہ ہے۔
50روپے کا جوس، 30 روپے کا پیکٹ = 80 روپے
بیگ اور اس پر پرنٹنگ کی قیمت ان چیزوں سے زیادہ ہے https://t.co/Uu9eEYtcmD
— Ahmad Warraich (@ahmadwaraichh) September 13, 2025
صحافی احمد وڑائچ نے اس فوڈ ہیمپر پر اپنا تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ 50 روپے کا جوس اور 30 روپے کا چپس ہے، کل قیمت 80 روپے۔ بیگ اور اس پر پرنٹنگ کی قیمت ان چیزوں سے زیادہ ہے۔
پنجاب سیلاب امدادی سرگرمیاں سیکورٹی نہ ہونے سے متاثر:
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں لوگ سیکورٹی نہ ہونے پر بھی اپنے مکان چھوڑنے کو تیار نہیں، جس سے جانی و مالی نقصان میں اضافہ ہورہا ہے۔
صحافی عمر دراز گوندل نے ایک ایسی ہی ویڈیو سیلاب سے شدید متاثرہ علی پور کے علاقے سے شیئر کی۔
صحافی عمر دراز گوندل نے لکھا کہ "آج علی پور کے سیلاب میں ڈوبے سیت پور کے مضافاتی علاقے تک گیا ، ایک بزرگ سے پوچھا یہاں باہر کیوں نہیں جاتے تو جواب رونگھٹے کھڑے کرنے والا تھا کہ ” ہمارے گھروں میں چوریاں ہورہی ہیں۔”
این جی اوز کی امدادی سرگرمیاں:
سیلاب اور تباہی اس نوعیت کی ہے کہ صرف حکومتی امداد کے سہارے ہونے سے امدادی سرگرمیاں ممکن نہ ہو پائیں گی۔
اس وقت ہر متاثرہ شہر میں مقامی اور ملکی سطح کی این جی اوز اپنے رضاکاروں کے ذریعے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
یوں تو یہ ایک طویل فہرست ہے لیکن چند بڑے ناموں میں رزق فاؤنڈیشن، الخدمت فاؤنڈیشن اور مونال فاؤنڈیشن وغیرہ شامل ہیں۔
رزق فاؤنڈیشن کی بات کرلی جائے تو یہ مونال فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر موبائل کچن کے ذریعے سیلاب سے متاثرہ علاقوں مثلاً سیالکوٹ، جالالپور پیروالا وغیرہ میں "ڈونیٹ اے میل”نامی منصوبہ چلا رہی ہے۔
اس میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں شہریوں کو کھانا مہیا کیا جارہا ہے۔
سیلاب میں گھرے اپنے بھائیوں کی مدد کیلئے شہری صرف 100 روپے کے عطیہ میں اس پروگرام کے ذریعے متاثرین تک کھانا بھیج سکتے ہیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن، ادویات، راشن اور خیموں کی تقیسم:
الخدمت فاؤںڈیشن اپنے رضاکاروں کے ذریعے اس وقت سب سے بڑے فلڈ ریلیف پروگرام کو سرانجام دی رہی ہے۔
الخدمت کی جانب سے خیموں، راشن، ادویات، جانوروں کی ضروریات اور دیگر ضروریات زندگی کی تقسیم کا عمل جاری ہے۔
حکومت سیلاب متاثرین کی داد رسی میں ناکام:
سیلاب کا سلسلہ ابھی تھما نہیں ہے اور اس سے ہونے والے نقصان کا ازالہ بھی ابھی کرنا ناممکن ہوگا۔
حکومت پنجاب سیلاب امدادی سرگرمیاں موجودہ حالات میں ناکافی دکھائی دے رہی ہیں، اور اس میں حکومتی نااہلی بھی شامل ہے۔
حکومت کی جانب سے ابتدائی وراننگز کو سنجیدگی سے لیا جاتا تو آج حالات مختلف ہوتے۔
پنجاب میں سال 2025 کے سیلاب نے جو تباہی کی داستان چھوڑی ہے اس سے اگر سبق حاصل نہ کیا گیا تو ہر گزرتا سال اس سے زیادہ تباہی لائے گا۔