اہم خبریںسائنس اور ٹیکنالوجی

ہارپ ٹیکنالوجی کیا ہے؛سیلاب، زلزلہ دیگر آفات میں اسے ذمہ دار کیوں ٹھہرایا جا رہا ہے؟

ہارپ ٹیکنالوجی کی بنیاد 1993 میں امریکی ریاست الاسکا میں رکھی گئی تھی۔ یہ امریکی ایئر فورس، امریکی نیوی، یونیورسٹی آف الاسکا اور ڈیفنس ایڈوانس ریسرچ  پراجیکٹ ایجنسی کا مشترکہ منصوبہ تھا۔

ہائی فریکوئنسی ایکٹیو اورورل ریسرچ پروگرام (HAARP) جدید دور کے سب سے زیادہ زیر بحث سائنسی منصوبوں میں سے ایک ہے۔

تاہم اس کے زیر بحث ہونے کی وجہ اس کی فضائی تحقیق کا ایک آلہ نہیں بلکہ اس کے گرد گھومتی سازشی تھیوریاں ہیں۔

1990 کی دہائی میں ہارپ ٹیکنالوجی زمین کے بالائی ماحول کی تہہ ‘آئنوسفیر’  پر ریسرچ کرنے کیلئے سامنے آئی تھی۔

بعدازاں اس کے گرد سازشی تھیوریاں سامنے آنے لگی اور اسے بگڑتی ہوئی موسمیاتی  صورتحال، قدرتی آفات جیسا کہ زلزلہ، طوفان وغیرہ سے جوڑا جانے لگا ۔

اگرچہ سائنسی تحقیق کی نظر میں اسے  آئنوسفیرک ریسرچ کے ایک آلے کے طور پر دیکھا اور پیش کیا جاتاہے، عوامی سطح پر اسی سازشی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔

آئیے جدید ریسرچ، ماہرین کے رائے اور مستند ریسرچ اور فیکٹ چیک کی مدد سے جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہارپ ٹیکنالوجی کیا ہے؟ یہ ٹیکنالوجی کس اصول پر کام کرتی ہے اور اس کے گرد گھومتی سازشی تھیوریاں کس حد تک درست ہیں۔

 

ہارپ ٹیکنالوجی کیا ہے؛ یہ کس اصول پر کام کرتی ہے؟

 

ہارپ ٹیکنالوجی امریکہ:

 

ہارپ ٹیکنالوجی کی بنیاد 1993 میں امریکی ریاست الاسکا میں رکھی گئی تھی۔ یہ امریکی ایئر فورس، امریکی نیوی، یونیورسٹی آف الاسکا اور ڈیفنس ایڈوانس ریسرچ  پراجیکٹ ایجنسی کا مشترکہ منصوبہ تھا۔

ابتدائی طور پر اس کے لانچ کرنے کا مشن زمین کی بالائی تہہ آئنوسفیر پر ریسرچ کرنا تھا جو کہ مواصلات کے نظام میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

آئنوسفیرکیاہے، اور ہارپ ٹیکنالوجی کیلئے اس کی کیا اہمیت ہے؟

 

ناسا کے مطابق آئنو سفیر زمین کی بالائی تہہ سے 50 سے لیکر 400 میل تک پھیلی ہوئی ہے۔

جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، آئنو سفیر برقی طور پر فعال تہہ ہے جس میں آزادالیکٹرانز اور مخصوص قسم کے چارچ

آئنز موجودہوتے ہیں۔

یہ اس وقت وجود میں آتے ہیں جب الٹراوائلٹ شعاعیں اور ایکس ریز فضاء میں موجود گیسوں کو آئنائز کر دیتےہیں۔

آئنو سفیر کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ یہ ریڈیو ویوز کو منعکس کرنے، موڑ دینے اور موافق بنانے (بہتر) کی صلاحیت رکھتی ہے۔

یہ خصوصیات آئنوسفیر کو مواصلا ت کے نظام جیسا کہ طویل فاصلہ ریڈیو کمیونیکیشن اور جی پی ایس کیلئے معاون بناتی ہے۔

یہ اس لئے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ نچلا ماحول جس میں ہم سانس لیتےہیں اور خلاء کے درمیان ایک باؤنڈری کا کام بھی کرتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ابتدائی طور پر ہارپ ٹیکنالوجی آئنوسفیر کی ان خصوصیات پر مزید تحقیق کیلئے سامنے آئی تھی۔

بعدازاں اس  کے دیگر  خفیہ مقاصد بھی سامنے آنے لگے جس نے کئی سازشی باتوں کو فروغ دیا۔

ہارپ کا ملٹری عزائم کیلئے استعمال:

 

ابتدائی طور پر آئنوسفیر پر ریسرچ کیلئے سامنے آنے والی ہارپ ٹیکنالوجی کو بعدازاں امریکہ کی جانب سے ملٹری مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔

ریسرچ کے مطابق اس ٹیکنالوجی کو امریکہ کی جانب سے مواصلاتی نظام کے ذریعے عالمی نگرانی ، میزائل کی نشاندہی اور دشمن کے ریڈار کو متاثر کرنے جیسے استعمال میں بھی لایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعدازاں اس ٹیکنالوجی کے اخلاقی پہلووؤں پر سوالات اٹھنے لگے۔

 

ہارپ  کے نقصانات:

 

ہارپ اور سیلاب:

 

موسمیاتی جنگ میں ہارپ ٹیکنالوجی کے استعمال کی تاریخ ویتنام کی جنگ میں ملتی ہے جس میں امریکہ نے آپریشن پاپائے کے دوران کلاؤڈ سیڈنگ کی تکنیک اپنائی۔

اس کا مقصد مون سون کی بارشوں کو بڑھانا تھا تا کہ دشمن کی سپلائی لائن کو توڑا جاسکے۔

اگرچہ یہ اس وقت محدود پیمانے پر کیا گیا اور بعدازاں اس کی ایسی نشانیاں نہیں ملیں۔ لیکن اس نے جس عمل کو فروغ دیا وہ اب بھی سازشی تھیوری کی شکل میں موجود ہے۔

موجودہ موسمیاتی حالات نے ایک بار پھر موسمیاتی جنگ کیلئے ہارپ کے استعمال کے خیال کو فروغ دینا شروع کردیا ہے۔

گزشتہ عرصے میں دبئی، میکسیکو، سپین اور موجودہ حالات میں جنوبی ایشائی ممالک جیسا کہ پاکستان وغیرہ میں سیلابی صورتحال کو ہارپ سے جوڑا جارہا ہے۔

اس میں سامنے آنے والے دعوے یہ ہیں کہ ہارپ آئنوسفیر کو توانائی فراہم کر رہا ہے اور اس سے شدید بارشیں اور سیلابی پیدا ہورہے ہیں۔

لیکن سائنسدان اور موسمیاتی ادارے ان دعوؤں کو محض سازشی تھیوری قرار دے کر رد کر رہے ہیں۔

سائنسدانوں اور ماحولیاتی ماہرین کا اس حوالے سے خیال ہے کہ موجودہ بارشیں اور سیلابی صورتحال ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے جو ہمارے اپنے کارناموں کے باعث ہے۔

مثال کے طور پر سپین میں پیدا ہونے والی سیلابی صورتحال کی تحقیق کے بعد یہ بات سامنے آئی کے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم کی شدت میں اضافہ ہورہاہے۔ موسمیاتی شدت میں اضافہ گلیشئر پگھلنے کی وجہ بن رہا ہے جبکہ بخارات میں اضافے سے فضاء میں نمی کا تناسب بھی زیادہ ہورہا ہے جو ان بارشوں اور سیلاب کی وجہ بن رہا ہے۔

زلزلہ اور ہارپ

 

سیلاب کے علاوہ زلزلے کی آفت کو بھی اس ٹیکنالوجی سے جوڑا جارہا ہے بالخصوص سال 2010 کا ہیٹی کا زلزلہ، سال 2023 میں ترکی اور شام میں زلزلہ اور رواں سال 2025 میں میانمار کے زلزلہ کو اس ٹیکنالوجی سے جوڑا جاتا ہے۔

تاہم ماہرین ارضیات اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ اس کی نفی میں دیئے جانے والے دلائل میں ماہرین کا کہنا ہے کہ آئنوسفیر میں موجود ہارپ ٹیکنالوجی زمین پر اثرات ڈالنے کیلئے ناکافی اثر رکھتی ہے۔

بالفرض اسے زمین تک  اتنی ہی طاقت میسر آ بھی جائے جتنی آئنوسفیر میں موجود ہے تو پھر بھی ریڈیو لہریں زمین کی تہوں میں جا کر زلزلہ پیدا نہیں کر پائیں گیں۔

 

اختتامیہ:

 

ہارپ نے آئنوسفیر کو بہتر انداز میں سمجھنے میں مدد دی ہے جس نے مواصلات کے نظام کو بہتری کی سطح پر پہنچایا ہے اور اب بہترین کا سفر جاری ہے۔

تاہم اس کے ساتھ سالہا سال  سے سازشی تھیوریاں بھی جوڑی گئی ہیں  جس نے اس کے منفی کردار کو اجاگر کیا ہے۔

تاہم ماہرین موسمیات اور ماہرین ارضیات اس بات سے انکار کرتے ہیں کہ ہارپ موسم کو اس حد تک تبدیل کرنے کی مہارت نہیں رکھتا  جس حد تک خود انسانی سرگرمیوں نے ماحول کو نقصان پہنچایا ہے۔

تاہم ہارپ کے گرد گھومتی یہ سازشی تھیوریاں اس وقت تک رک نہیں سکتیں جب تک اس پر مزید ریسرچ کر کے اسے عام عوام تک آسان الفاظ میں پہنچایا جائے ۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button