دنیا

سعودی سلیپنگ پرنس ابدی نیند سو گیا

شہزادہ الولید بن خالد بن طلال تقریباً 20 سال کومہ کی حالت میں رہنے کے بعد گزشتہ روز 19 جولائی کو انتقال کر گئے۔

سعودی عرب اور دنیا بھر میں سلیپنگ پرنس (Sleeping Prince) کے نام سے مقبول سعودی شہزادہ الولید بن خالد بن طلال تقریباً 20 سال کومہ کی حالت میں رہنے کے بعد گزشتہ روز 19 جولائی کو انتقال کر گئے۔

ان کے انتقال کی خبر ان کے والد خالد بن طلال بن عبدالعزیز نے ایک ٹویٹ کے ذریعے کی جس میں انہوں نے لکھا کہ ہم دل میں اللہ کے فیصلے اور تقدیر پر کامل ایمان کے ساتھ اپنے بیٹے امیر الولید بن خالد بن طلال بن عبدالعزیز ال سعود کی وفات پر تعزیت پیش کرتے ہیں۔

 

افسوسناک واقعہ جو شہزادہ الولید بن خالد کو کومہ تک لے گیا:

 

سلیپنگ پرنس شہزادہ الولید بن خالد بن طلال بن عبدالعزیز ال سعود کی زندگی میں افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ 15 سال کا تھا۔ 2005 میں ایک کار حادثہ میں زخمی ہونے کے بعد سعودی شہزادہ کومہ میں چلا گیا۔

جس وقت یہ افسوسناک واقعہ پیش آیا اس وقت سعودی شہزادہ الولید بن خالد ملٹری کالج لندن میں زیر تعلیم تھے۔

بظاہر ان کی تعلیمی سرگامیاں روشن مستقبل کی طرف اشارہ کر رہی تھیں لیکن افسوسناک واقعہ نے ان کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔

اس کار حادثہ میں انکے دماغ پر شدید چوٹیں آئیں جس کے بعد وہ کومہ میں چلے گئے۔  وہ سعودی دارالحکومت ریاض کے کنگ عبدالعزیز میڈیکل سٹی میں لائف سپورٹ پر زندگی کے دن پورے کر رہے تھے۔

 

سلیپنگ پرنس اور والدین کی محبت کی لازوال داستان:

 

شہزادہ ولید کی کہانی میں والدین کی اولاد کیلئے بے پناہ قربانی اور محبت کی بھی الگ داستان چھپی ہے۔

ان دو دہائیوں میں کئی بار ڈاکٹرز کی جانب سے ان کے والد کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ شہزادے کی ریکوری کے چانسز نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لئے لائف سپورٹ ہٹا دی جائے۔

لیکن ہر بار ڈاکٹرز کی جانب سے ملنے والی اس آفر کو والد نے نظر انداز کیا۔

والد کا کہنا تھا کہ اللہ کو اس کی موت مقصود ہوتی تو وہ اسی حادثے میں ہی وفات پا جاتا۔ یوں والد کی جانب سے لمبے عرصے پر محیط صبر و تحمل کا مظاہرہ بھی دیکھنے کو ملا۔

 

مزید پڑھیں: سعودی سلیپنگ پرنس کے ہوش میں آنے کے کتنے فیصد امکانات ہیں؟

 

2019 میں شہزادے کے ہوش میں آنے کے امکانات پیدا ہوئے تھے جب انہیں ہاتھوں کی انگلیوں کو حرکت کرتے دیکھا گیا۔

لیکن اس کے بعد وفات تک بہتری یا حرکت کے کوئی آثار نظر نہ آئے۔

شہزادہ ولید کی فیملی کی جانب سے تہواروں اور دیگر مواقع پر ان کی تصاویر شیئر کی جاتی تھیں جن میں گھر کے افراد ان کےساتھ موجود ہوتے۔

یہ تصاویر میڈیا کی زینت بھی بنتی، لوگ بھی اسے بڑے پیمانے پر شیئر کرتے اور متاثرہ فیملی اور شہزادے کی صحتیابی کیلئے دعا بھی کرتے۔

 

کیا کومہ کے مریض دو دہائی بعد ہوش میں آسکتے ؟

 

سعودی شہزادے کی حالت کا دیگر میڈیکل کیسز کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو ہمیں تاریخ میں ایسے کیسز ضرور ملتے ہیں جب شہری لمبے عرصے تک کومہ میں رہنے کے بعد دوبارہ ہوش میں آئے۔

ٹیری والس نامی امریکی شہری 1984 میں ایک حادثہ کے بعد کومہ کا شکار ہو گئے تھے۔ وہ 19 سال تک بے ہوش رہنے کے بعد بالاآخر 2003 میں اچانک ہوش میں آگئے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق ٹیری والس نے اس کے بعد اپنے گھر والوں کو پہچاننا شروع کیا اور یاداشت بھی بحال ہو گئی۔

جان گرزیبسکی ایک ریلوے ورکر تھے جو 1988 میں کومہ کی حالت میں چلے گئے اور اس کے بعد تقریباً 19 سال کے بعد وہ 2007 میں ہوش میں آگئے۔

یہ بھی تقریباً دو دہائیوں پر مشتمل کیسز ہیں جن میں مریض ریکور ہوئے لیکن افسوس کے سعودے شہزادے الولید بن خالد بن طلال بن عبدالعزیز ال سعود جانبز نہ ہوسکے۔

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button