
کورٹ رپورٹرز کے مطابق گزشتہ روز سویلینز کے ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے کیس میں ایک وکیل نے آئینی بینچ کو بتایا کہ انہیں عدالتوں اور ٹی وی پر بولنے سے روکا جارہا ہے۔ وکیل نے بتایا کہ انکار کرنے پر مجھ پر 26 نومبر کو رینجرز اہلکاروں کو قتل کرنے کی ایف آئی آر کاٹ دی گئی اور مجھے کہا گیا کہ تمہیں ملٹری عدالتوں میں لے جائیں گے۔ اس وکیل نے عدالت کویہ بھی بتایا کہ ہوسکتا ہےمجھے 7 فروری کوجیل میں بند کر دیا جائے۔
یہ وکیل تھے سلمان اکرم راجہ جن کی یہ بات سامنے آنے کے بعد سے افسوسناک صورتحال پیدا ہوئی کیونکہ سلمان اکرم راجہ ایک سینئر قانون دان ہیں۔ انہیں اس طرح کی دھمکی ملنا ایک ایسی بات تھی جسے ہلکا نہیں لیا جاسکتا تھا۔
نواز شریف کی نمائندگی سے پی ٹی آئی رہنما تک :
یوں تو سلمان اکرم راجہ ان دنوں پاکستان تحریک انصاف کے رہنما کے طور پر جانے جاتے ہیں، لیکن ان کا اصل تعارف ایک مایہ ناز وکیل کا ہے۔
پی ٹی آئی یا عمران خان کی نمائندگی سے قبل سلمان اکرم راجہ نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس میں بھی ان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
ان کے ہم عصر وکلاء میں خواجہ حارث بھی شامل ہیں جنہوں نے نواز شریف اور عمران خان کی نمائندگی کر رکھی ہے جبکہ وہ اس وقت سویلینز کے ملٹری ٹرائل کے کیس میں طاقتور حلقوں کے وکیل بھی ہیں۔
سلمان اکرم راجہ کے سامنے بھی یہ راستہ تھا لیکن انہوں نے مشکل راستہ چنا اور وہ راستہ سیاست کا تھا۔ ان کا سیاست میں آنے کا فیصلہ ان کی قانونی حیثیت سمیت کئی معاملات کو داؤ پر لگانے کا اعلان تھا لیکن انہوں نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے سیاست میں قدم رکھ دیا۔
سلمان اکرم راجہ اور پی ٹی آئی:
سیاست میں قدم رکھنے کیلئے انہوں نے جس پارٹی کو چنا وہ پاکستان تحریک انصاف تھی اور اس وقت چنا جب اس پارٹی کے سرکردہ رہنما پارٹی چھوڑ کر جا چکے تھے اور پارٹی کے پاس لاہور کے میدان میں کھڑا کرنے کو مضبوط امیدوار نہیں مل رہے تھے۔
مزید پڑھیں:بیرسٹر سلمان اکرم راجہ اغواء؛ آج نہیںتو کل
ایسے میں سلمان اکرم راجہ نے پی ٹی آئی کا ٹکٹ قبول کیا اور این اے 128 لاہور سے عون چوہدری کے مقابل الیکشن لڑا۔ وہ ان متاثرہ امیدواروں میں شامل تھے جنہوں نے فارم 45 اور فارم 47 کی الجھن میں اپنی کامیابی گنوائی۔
پی ٹی آئی کے مطابق سلمان اکرم راجہ تقریباً ایک لاکھ کی برتری سے یہ الیکشن جیتے ۔ لیکن ان کی جیت کو ہار میں تبدیل کر دیا گیا۔
یہ ایک سینئر قانون دان کا سیاست میں پہلا تجربہ تھا جو کہ بہت برا رہا تھا۔ انہوں نے بہر حال قانون کا سہارا لے کر جنگ لڑنےکی کوشش کی لیکن یہاں بھی ان کو ریلیف نہ مل سکا۔
اس کے بعد انہوں نے پی ٹی آئی کی اندرونی سیاست کے باوجود عہدہ قبول کیا لیکن اس دوران وہ مایہ ناز قانون دان جو سب کو قانون سکھاتا تھا خود لاقانونیت کی نظر ہوگیا۔
اسے مقدمات میں نامزد کیا جانے لگا اور اب ملٹری ٹرائل تک کی دھمکیوں سے ڈرایا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی کیلئے اپنے سب کچھ داؤ پر لگانے والے سلمان راجہ:
سلمان اکرم راجہ نے بطور قانون دان اپنا کیئرئیر داؤ پر لگا دیا۔ اگر وہ اسی طرح قانونی معاملات دیکھتے رہتے تو جلد یا بدیر عدلیہ میں اپنی قانونی فہم وفراست کی بنیاد پر ہائیکورٹ کے جج کے رتبے تک بھی پہنچا دیئے جاتے۔
یقیناً وہ یہاں سے اپنی فہم و فراست کے باعث جلد اعلیٰ عدالتی عہدوں تک بھی پہنچ جاتے لیکن انہوں نے مشکل راستہ چن لیا اور اپنے اوپر سیاست کا ٹیگ لگوا لیا۔
وہ اب کبھی شاید کیرئیر کی اس ترقی کو نہ دیکھ سکیں جو ان جیسے سینئر قانون دان کا حق ہوا کرتی ہے لیکن انہوں نے اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا اور قانون کی حکمرانی کیلئے جو راستہ درست نظر آیا چن لیا۔
سلمان اکرم راجہ بہر حال سیاستدان نہیں۔ وہ خود بھی اس کر اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اگر انہیں جیتی ہوئی سیٹ نہ چھینی جاتی تو شاید یہ سینئر شخصیت پارلیمنٹ کی ایک توانا آواز ہوتی۔
سلمان راجہ کا مستقبل جو بھی ہو لیکن قانون کی حکمرانی کے فریضے پر کاربند رہتے ہوئے سلمان راجہ نے اپنا بہت کچھ داؤ پر لگا دیا ہے ۔ اگر کبھی پاکستان میں قانون کی حکمرانی کا دور واپس ہوا تو یقیناً سلمان اکرم راجہ کی خدمات قانون کے طلباء کیلئے مشعل راہ ہوں گی۔