اسلامی معاشرے میں سودی قرض کے مقابلے میں قرضِ حسنہ کا خوبصورت عمل پایا جاتا ہے جس میں کسی ضرورت مند شخص کو صاحب حیثیت شخص ضرورت کے وقت اللہ کی رضاکی خاطر رقم بطور قرض دیتا ہے۔
اس دوران ایک معاہدہ طے پاتا ہے اور مقررہ تاریخ طے ہوتی ہے جس پر قرض لینے والا رقم واپس کرے گا اور اگر کچھ سستی ہو جائے تو صاحب حیثیت شخص کوئی زیادتی نہیں کرے گا بلکہ تھوڑی سی مہلت دے گا۔
برا وقت کسی سے پوچھ کر نہیں آتا اور یہی وجہ ہے کہ اگر کسی ضرورت مند پر کوئی آفت آ پڑے یا وہ اپنے کسی فرض کی ادائیگی جیسا کہ بچوں کی شادی کیلئے سکت نہ رکھتا ہو تو وہ قرض حسنہ لے لیتا ہے۔
ایک دور تھا جب ہمارے ہاں قرض حسنہ باآسانی مل جایا کرتا تھا اور قرض لینے والے شخص کو قرض مقررہ وقت تک لوٹانےکی فکر رہتی تھی اور وہ قرض دینے والے کو یا تو مقررہ وقت پر ہی رقم ادا کر دیتا تھا اور اگر تھوڑی دیر ہو بھی جاتی تو معذرت کے ساتھ پہلے آگاہ کرتا اور پہلی فرصت میں قرض اتارنے کا بندوبست کرتا۔
لیکن پھر وقت نے پلٹا کھایا اور اب ادھار قرض واپس لینے کیلئے قرض دینے والے کو مقروض کے در پر بار بار جانا پڑتا ہے۔ تمام تر یقین دہانیاں رائیگاں جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں:پاکستان میں اب بزرگوں کیلئے اپنے گھر ہی اولڈ ایج ہوم کیوں بنتے جارہے؟
یوں قرض دینے والے کا مقروض شخص سے تو رشتہ کمزور ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی اسکا انسانیت پر سے بھی اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ شخص اب کسی بھی ضرورت مند کو قرض حسنہ نہ دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب حقیقی ضرورت مند کو جب معاشرے کے صاحب حیثیت شخص سے مدد نہ مل سکے اور مشکل وقت میں اپنے بھی منہ پھیر لیں تو وہ معاملات چلانے کیلئے سودی کاروبار کرنے والوں کے ہتھے ضرور چڑھے گا۔
یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اب لوگ سود کی چنگل میں پھنستے جارہےہیں اور کئی مقامات پر مقروض شخص پر جب سود کا پریشر بڑھتا جاتا ہے تو وہ اپنی جان لینےجیسے بڑے اقدامات اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔