متفرق

پاکستانی شہری سود میں کیوں پھنستے جارہے؟

اسلامی معاشرے میں سودی قرض کے مقابلے میں قرضِ حسنہ کا خوبصورت عمل پایا جاتا ہے جس میں کسی ضرورت مند شخص کو صاحب حیثیت شخص ضرورت کے وقت اللہ کی رضاکی خاطر رقم بطور قرض دیتا ہے۔

اس دوران ایک معاہدہ طے پاتا ہے اور مقررہ تاریخ طے ہوتی ہے جس پر قرض لینے والا رقم واپس کرے گا۔

اس دوران  اگر کچھ سستی ہو جائے تو صاحب حیثیت شخص کوئی زیادتی نہیں کرے گا بلکہ تھوڑی سی مہلت دے گا۔

برا وقت کسی سے پوچھ کر نہیں آتا اور یہی وجہ ہے کہ اگر کسی ضرورت مند پر کوئی آفت آ پڑے یا وہ اپنے کسی فرض کی ادائیگی جیسا کہ بچوں کی شادی کیلئے سکت نہ رکھتا ہو تو وہ قرض حسنہ لے لیتا ہے۔

ایک دور تھا جب ہمارے ہاں قرض حسنہ باآسانی مل جایا کرتا تھا اور قرض لینے والے شخص کو قرض مقررہ وقت تک لوٹانےکی فکر رہتی تھی ۔

ایسے میں مقروض شخص قرض دینے والے کو یا تو مقررہ وقت پر ہی رقم ادا کر دیتا تھا ۔  اگر تھوڑی دیر ہو بھی جاتی تو معذرت کے ساتھ پہلے آگاہ کرتا اور پہلی فرصت میں قرض اتارنے کا بندوبست کرتا۔

مزید پڑھیں:پاکستان میں اب بزرگوں کیلئے اپنے گھر ہی اولڈ ایج ہوم کیوں بنتے جارہے؟

پاکستانی شہری سود میں کیوں پھنستے جار ہے؟

وقت نے پلٹا کھایا اور اب ادھار قرض واپس لینے کیلئے قرض دینے والے کو مقروض کے در پر بار بار جانا پڑتا ہے۔ تمام تر یقین دہانیاں رائیگاں جاتی ہیں۔

قرض دینے والا شخص ایسے دہائیاں دے رہا ہوتا ہے جیسے وہ ادھار مانگ رہا ہو۔ ایک مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ قرض دینے والے کو اکثر مقروض شخص کو بتانا پڑتا ہےکہ اسے اپنے ہی دیئے ہوئے پیسے واپس کیوں چاہیں؟

یوں قرض دینے والے کا مقروض شخص سے تو رشتہ کمزور ہوتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی اسکا انسانیت پر سے بھی اعتماد اٹھ جاتا ہے۔

اس کے بعد وہ شخص اب کسی بھی ضرورت مند کو قرض حسنہ نہ دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اب حقیقی ضرورت مند کو جب معاشرے کے صاحب حیثیت شخص سے مدد نہ مل سکے اور مشکل وقت میں اپنے بھی منہ پھیر لیں تو وہ معاملات چلانے کیلئے سودی کاروبار کرنے والوں کے ہتھے ضرور چڑھے گا۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں اب لوگ سود کی چنگل میں پھنستے جارہےہیں اور کئی مقامات پر مقروض شخص پر جب سود کا پریشر بڑھتا جاتا ہے تو وہ اپنی جان لینےجیسے بڑے اقدامات اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

سفید پوش شخص کے پاس بس عزت ہی باقی ہوتی ہے۔ ایسا شخص اگر کسی سود خور کے ہاتھ چڑھ جائے اور عزت پر آنچ آتی دکھائی دے تو اسے جو آسان راستہ نظر آتا ہے وہ اپنی جان لینے کا ہے۔

ڈیجیٹل سودی قرض اور سادہ لوح لوگ:

قرض کی ایک شکل آج کل ڈیجیٹل قرض بھی ہے جس میں مختلف کمپنیاں گمراہ کن اشتہارات کا سہارا لے کر لوگوں کو قرض لینے پر اکساتی ہیں۔

ان کمپنیوں کے اشتہارات میں آسان شرائط بتائی جاتیں ہیں جیسا کہ "صرف شناختی کارڈ لائیں اور قرض پائیں”۔ سادہ لوح لوگ ان کمپنیوں کے سودی جال میں پھنس جاتے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل ایک لون ایپ کے ذریعے سود کے جال میں پھنسے غریب شخص کی خودکشی نے معاملے کی سنگینی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ لیکن ارباب اختیار کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

اب یہ لون ایپ اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ ہم سب نے ایسا اشتہار ضرور دیکھ رکھا ہو گا جس میں آسان شرائط پر قرضے کا وہ راگ الاپا گیا ہوگا جو پہلے زیرِ بحث آ چکا ہے۔

یوں سودی نظام قیمتی انسانی جانیں لئے جارہا ہے لیکن خود کشیوں کی یہ فہرست ہمارے آنکھیں نہیں کھول رہی ہے کیونکہ سود ہمارے معاشی نظام کا حصہ بن چکا ہے۔

 

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button