پاکستان میں تعلیمی اداروں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور سرکاری دفاتر میں سیاسی اور مذہبی بحث و مباحثے پر مکمل پابندی عائد کر دی ہے، جس پر سختی سے عمل درآمد کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت اٹک میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ایڈمنسٹریشن (ڈی ای اے) نے دو خواتین اساتذہ کو سیاسی مباحثے میں ملوث ہونے پر معطل کر دیا ہے۔
یہ پابندی کمشنر راولپنڈی کی منظوری کے بعد نافذ کی گئی ہے، اور ڈپٹی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر مسرت سلطانہ کو اس معاملے کی تحقیقات کرنے اور رپورٹ پیش کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اسکولوں، محکموں کے سربراہان، اور سرکاری دفاتر کو نوٹیفکیشن جاری کیے گئے ہیں، جن میں خبردار کیا گیا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کو سخت نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس اقدام پر مختلف حلقوں، بشمول آل پاکستان کلرکس ایسوسی ایشن اور اساتذہ کی تنظیموں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے، جنہوں نے ان پابندیوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات اظہارِ رائے اور تعلیمی آزادی کو محدود کرتے ہیں اور ان اداروں میں معنی خیز مباحثے کو روکتے ہیں جو تعلیم اور ترقی کے لیے بنائے گئے ہیں۔
مزید پڑھیں:اے ٹی ایم سے جعلی کرنسی نکلنا وباء بن گیا
ڈسٹرکٹ ایجوکیشن ایڈمنسٹریشن (ڈی ای اے) راولپنڈی نے اس ہدایت کو دوبارہ دہراتے ہوئے اسکولوں کے سربراہان کو سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنانے کی ہدایت دی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ پابندی نظم و ضبط اور پیشہ ورانہ معیار کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے، لیکن بہت سے لوگ اسے پاکستان کی حکمرانی کے وسیع تر رجحان کا حصہ سمجھتے ہیں، جہاں سیاسی بحث پر پابندیاں اکثر اختلافِ رائے کو دبانے اور کنٹرول کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہیں۔
سیاسی اور مذہبی بحث و مباحثے پر اس پابندی نے سوال اٹھایا کہ کیا طلباء کی تعلیمی اداروں میں مباحثوں میںپابندی سے اگلی نسلوں کو بھی آواز اٹھانے سے روکنا مقصود ہے؟